تحریر: ثاقب اکبر
اسلام کی تعبیر نو کے لئے بہت سے اہم مفکرین نے اپنے افکار کو منظم صورت میں پیش کیا ہے۔ علامہ اقبال کی ”تشکیل جدید الہیات“ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سر سید احمد خان اور مصر کے رشید رضا کے افکار کو بھی اسلام کی عصری تعبیر قرار دیا جاتا ہے۔ تہذیبوں اور تمدنوں کے ارتقاء اور باہمی تعامل نے ماضی کے بعض افکار کو بہت بڑا چیلنج دیا۔ یہ چیلنج دین اور مذہب کے ماننے والوں کے لئے زیادہ اہم تھا۔ اس کا سامنا اہل دین کے مختلف مفکرین نے مختلف انداز سے کیا ہے۔ ردعمل میں افراط و تفریط کا ہو جانا بھی بعید نہ تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ علامہ اقبال کو فلسفی سے زیادہ بعض لوگ کلام جدید کی دنیا کا ایک مفکر قرار دیتے ہیں۔ یہ بات کوئی ایسی غلط بھی نہیں۔ سر سید نے تو واضح طور پر کہا بھی کہ عصر حاضر میں جدید کلام کی ضرورت ہے۔ جدید کلام سے مراد دراصل قدیم افکار کی تشریح و تعبیر نو ہی ہے۔ بعض اہم مفکرین نے اس سلسلے میں تعبیر نو سے زیادہ تطبیق نو کے لئے جدوجہد کی ہے۔ وہ اسی کاوش کو اپنا کلام جدید قرار دیتے ہیں۔ نئے سوالات کے لئے جواباتِ کہنہ ہمیشہ کفایت نہیں کرتے۔ ماضی میں بھی مسلمانوں کو جب دیگر بڑی اور قدیم تہذیبوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں اسلام کی تشریح ان کے مفکرین کے سوالات کو سامنے رکھ کر کرنا پڑی۔ مختلف مسلمان گروہوں کے مابین نئے سوالات کے بارے میں جو نئی بحثیں ہوئیں، انہوں نے ہی علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ مختلف کلامی مکاتب فکر وجود میں آئے۔ یہی صورت حال بیسویں صدی میں مسلمان مفکرین کی کاوشوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
غلام احمد پرویز اگرچہ اسلامی معاشرے میں پوری طرح جذب نہ ہوسکے، لیکن ان کے افکار کی لہریں ابھی تک ہماری سوسائٹی میں سفر کر رہی ہیں اور ہم بہت سوں کو جانتے ہیں کہ وہ پرویز کے نام کے بغیر پرویز کی فکر کو اپنے یا کسی اور کے نام سے پیش کرتے ہیں، تاکہ اس ردعمل سے اپنے آپ کو بچا سکیں، جس کا سامنا پرویز کو کرنا پڑا۔ ہندوستان میں بزرگ عالم مولانا وحید الدین خان کو بھی اسی راستے کا راہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایران میں استاد مطہری جنھیں ابتدا میں علماء ہی کی طرف سے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جدید افکار کے مقابلے میں آج انہی کی فکر اور نام سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ امام خمینی کی طرف سے انہیں جو سرپرستی حاصل ہوئی اور ان کے افکار کو جو بلا شرط و قید تائید حاصل ہوئی، اس نے انہیں وہاں کی دنیا کی فکر و نظر کا راہنما بنا دیا ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان کو پاکستان کے لوگوں نے زیادہ تر سابق وزیراعظم کے مقدمات میں ان کا دفاع کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وزیراعظم کے مشیر کی حیثیت سے ان کی پہچان زیادہ ہوئی ہے، تاہم ہم انہیں ایک عرصے سے ایک مفکر کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو ایک صوفی بھی کہتے ہیں اور انہوں نے ایک خانقاہ بھی بنا رکھی ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتب بھی ان کے مشرب کو بیان کرتی ہیں۔ تاہم اسلام کی تعبیر نو بھی ان کا خاص موضوع ہے۔
21 مارچ 2018ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کا عنوان تھا ”پیغام پاکستان: دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متفقہ بیانیہ۔“ اس کے مہمان خصوصی مفتی مصر ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم العلام تھے۔ اس مذاکرے کی صدارت بیرسٹر ظفر اللہ نے کی۔ ”پیغام پاکستان“ حال ہی میں پاکستان کے 1829 علماء اور دانشوروں کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک دستاویز ہے، جس میں عصر حاضر میں پاکستان اور عالم اسلام میں جاری دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بارے میں پاکستان کا نقطہ نظر واضح کیا گیا ہے۔ اسی پیغام پاکستان کو مفتی مصر کے سامنے بھی پیش کیا گیا اور ان کی موجودگی میں دیگر پاکستانی دانشوروں نے بھی اظہار خیال کیا۔ مفتی مصر نے اس کی تائید کی اور کہا کہ عالم اسلام کے تمام علماء کا یہی پیغام ہے، جو پاکستان کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔ اس موقع پر کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر اکرام الحق نے پیغام پاکستان کے حوالے سے وضاحت کی اور کونسل کا بھی نقطہ نظر پیش کیا۔ راقم نے مفتی مصر کی اسلامی نظریاتی کونسل میں تشریف آوری کو ان الفاظ میں منظوم کیا ہے:
یہ اِسلامی نَظَریَاتی کونسل کا بھی ہے اکرام
کہ تشریف اس میں لائے ہیں جنابِ شوقیِ علام
کہا شدت پسندی کا نہیں دیں سے کوئی رشتہ
بیانِ امتِ اسلام پاکستان کا پیغام
راقم نے مفتی مصر کی اس تائید اور ان سے ہونے والی محبت آمیز ملاقات کو بھی ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
اپنی تو پہلے ہی شہرت ہے وفا و مہر میں
کل دیارِ مصر کے مفتی تھے اپنے شہر میں
گرمجوشی، خندہ روئی دونوں جانب دیکھیے
وہ بھی تھے کچھ لہر میں اور ہم بھی تھے کچھ لہر میں
بیرسٹر ظفر اللہ نے اس موقع پر نہایت فکر انگیز گفتگو کی۔ کم وقت میں انہوں نے نہایت اہم نکات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ یہ نوبت کیوں آئی کہ ہمیں نیا بیانیہ بنانا پڑا۔ ان کی رائے تھی کہ موجودہ انتہاء پسندی مسلم ممالک کی اس ناکامی کی وجہ سے رونما ہوئی، جو جدید دنیا کو ڈیل کرنے میں پیش آئی ہے۔ کسی بھی سماج کو جو فکری، نظری اور فلسفی چیلنجز درپیش ہوتے ہیں، اگر وہ اس کا مقابلہ کر لیتا ہے تو بچ جاتا ہے، ورنہ اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ رسول اللہ نے اپنے دور کے قبائلی اسٹرکچر کو نئے سماج کی تشکیل کے لئے استعمال کیا۔ آپ نے شورائیت کا سبق دیا۔ نئے سماج کو عدل اجتماعی کی بنیاد پر کھڑا کیا۔ آپ نے حقوق انسانی کا تصور دیا۔ توہم پرستی کے مقابلے میں عقل و شعور کو استعمال کیا۔ اس طرح اسلام ایک بڑی تہذیب کے طور پر سامنے آیا۔ البتہ ملوکیت کے دور میں شورائیت کا سبق فراموش کر دیا گیا اور عدل اجتماعی و حقوق انسانی کو نظر انداز کر دیا گیا۔ بیرسٹر ظفر اللہ کی رائے تھی کہ مسلمان ممالک مجموعی طور پر عہد حاضر کے چیلنجز کا صحیح طور پر سامنا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا انتہا پسندی فطری اظہار کے طور پر سامنے آئی ہے۔ گذشتہ چند صدیوں میں انسان نے جو سائنسی ترقی کی ہے، مسلم ممالک اس کا ساتھ نہیں دے سکے۔ اس دور میں قومی ریاستوں کا وجود شوریٰ کے اصول پر استوار ہوا۔ مسلم سماج ابھی تک قومی ریاستوں کے تصور کو جذب نہیں کرسکا۔ ایک وہمی فکر ابھی تک باقی ہے کہ پوری دنیا میں ایک خلافت چلے گی اور ابھی تک ذہن اس امر میں مذبذب ہیں کہ ملک کے آئین کو ماننا ہے کہ نہیں ماننا۔ اقلیتوں کے کیا حقوق ہوں گے، وہ ایک مسلمان سماج میں کیسے زندگی بسر کریں گے، یہ بھی مذہبی حلقوں میں ابھی زیر سوال ہے۔ ماضی کے مذہبی لٹریچر میں ایسی باتیں ملتی ہیں، جو آج درست معلوم نہیں ہوتیں۔
سوشل سائنسز نے بہت ترقی کی ہے۔ انسان کا نیا علم کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے۔ انہوں نے دنیا میں علم و تعلیم پر دی جانے والی توجہ کے حوالے سے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہارورڈ یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ 32 بلین ڈالر ہے۔ ایک ایک یونیورسٹی کا بجٹ ہمارے کئی ملکوں کے بجٹ پر بھاری ہے۔ انہوں نے علوم کے مختلف شعبوں میں آنے والی تبدیلیاں اور ارتقاء کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، ابھی ہمیں ان کا اندازہ نہیں۔ ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ اگر ریاست کا جدید تصور ہمیں قبول کرنا ہے تو پھر اس میں فتویٰ کی گنجائش کتنی ہے۔ ماضی کے بعض افکار اور بعض آئمہ و علماء کی تعبیرات کے نقصان دہ اثرات کی طرف بھی انہوں نے اشارہ کیا اور کہا کہ ایک امام کی غلط تعبیر پر آدھا متشددانہ فکر استوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی فکر حقوق انسانی کی بحث سے دور کھڑی ہے۔ عورتوں اور بچوں کے حقوق کے بارے میں ابھی ہمیں بہت کچھ سوچنا ہے۔ ان کی رائے تھی کہ یہ ہیومنزم کا دور ہے اور ہیومنزم خدا کے بجائے انسان کو اپنا بنیادی نکتہ قرار دیتا ہے۔ ہم نے اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ اسے ہمیں نے کتنی جگہ دینا ہے۔ ایک خلاء ہے اور ایک انتشار ہے، ایک غیر واضح سوچ ہے۔ غیر حقیقت پسندانہ باتیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے اس پس منظر میں شدت پسندانہ مذہبی فکر کے بارے میں کہا کہ اس فکر نے اس حدیث کو اپنی تشریح کے مطابق اختیار کر رکھا ہے، جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے جو کسی منکر کو دیکھے تو پہلے مرحلے میں اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی جوانی کے دور میں خود بھی ایسا ہی کرتا رہا ہوں۔ 45 سال کی عمر تک اس کی جو تعبیر سمجھ آئی، ہم اس پر عمل کرتے رہے اور دنیا کے بدلے ہوئے حقائق میں اس پر کس طرح سے عمل کرنا ہے، یہ بات بعد میں سمجھ میں آئی۔ پیغام پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس فتویٰ میں اب اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسے احکام پر کس نے اور کس طرح عمل کرنا ہے، لیکن اس نتیجے تک پہنچنے میں ہمیں بہت دیر لگی۔ انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کو اٹل مانتے ہوئے ہمیں عہد حاضر کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے الازہر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بہت بڑا نام ہے اور اس کا بہت بڑا کردار ہے اور اب بھی عالم اسلام میں اس کا بہت اثر ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسے موضوعات پر بات کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی ادارہ نہیں ہے۔ کونسل کو چاہیے کہ اپنی کوششوں کو آگے بڑھائے۔ آخر میں انہوں نے جدید تہذیب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سائنس کو پہلے حلال سمجھیں اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ ہم اس کا حرام استعمال نہیں ہونے دیں گے، بلکہ اسے اپنے حق میں استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آخرت کے علاوہ ہمیں دنیا میں بھی رہنا ہے۔ ہمیں دنیا میں رہنے کے اصولوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰