رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق ، رجب المرجب کے مبارک مہینہ کی مناسبت سے ہم دعائے رجبیہ میں ہوشیدہ میں عظیم تعلیمات کو حضرت آیت الله جوادی آملی کی زبانی بیان کر رہے ہیں ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی اپنی کتاب "ادب فنائے مقربان" میں تحریر فرماتے ہیں : رجب کے مہینہ میں ہر روز کی دعا جس کو حضرت ولی عصر (عجّل الله تعالی فرجه الشریف) کے آخری نائب خاص محمد بن عثمان بن سعید نے نقل کیا ہے ، اس دعا میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی بعض معنوی مقامات کو عمیق مفاھیم کے سانچے میں بیان کیا گیا ہے ، ہم یہاں ہر اس دعا کے ایک جملے «...فجعلتهم معادن لكلماتك و أركاناً لتوحیدك و آیاتك و مقاماتك الّتی لا تعطیل لها فی كل مكان؛ یعرفك بها من عرفك. لا فرق بینك و بینها إلاّأنّهم عبادك و خلقك. فتقها و رتقها بیدك. بدؤها منك و عودها إلیك ... » کی طرف اشارہ کریں گے ۔
الف ۔ اس جملہ میں توحید سے مراد ، خداوند عالم کی افعالی توحید ہے ، کیوں کہ الہی کلمات کا معدن ہونا ، توحید کے ارکان اور آیات اور اس کے مقامات میں سے قرار پانا فقط و فقط توحید افعالی کے سازگار ہے ۔ دوسرے یہ کہ «تعطیل» فقط و فقط الہی افعال کے سلسلہ میں قابل تصور ہے کہ وہ بھی علم و عین میں فیاضی کی توسیع کے ذریعہ قابل نفی ہے ؛ لیکن «تعطیل» ذات اقدس الہی اور اس کے صفات میں کہ جو عین ذات ہیں قابل تصور نہیں ہے ۔
ب ۔ انسان کامل یعنی ائمه اطهارعلیهمالسلام کی خلافت کا استمرار اور یہ کہ یہ ہستیاں ہمیشہ فیض الہی کی جلوہ گاہ و وسیلہ ہیں ، الہی مناصب و تجلیات کے تعطیل نہ ہونے کی حقیقی بنیاد ہیں کیوں کہ اس کا فیض فقط وسیلوں سے ہی مخلوقات تک پہونچتا ہے ، مخلوقات مین بلا واسطہ ان فیوض کے دریافت کرنے کی توانائی موجود نہیں ہے ۔
ج ۔ «یعرفك بها من عرفك» ، «بنا عبد الله و بنا عرف الله و بنا وحّد الله تبارك و تعالی... » کے مترادف ہے ، کہ جو توحید کے پہلے رکن کی جانب اشارہ گر ہے ۔
د ۔ «لا فرق بینك و بینها إلاّ أنّهم» ذات خدا کے مقام کے سلسلہ میں نہیں ہے ، کیوں کہ خدا کی ذات ممنوعہ علاقہ اور ریڈ لائن ہے ، انبیای الہی بھی اس منزل پر پہونچنے اور اس کے ادراک سے عاجز و ناتوان رہے ہیں ۔ نتیجتا اس کے مقام فعل سے متعلق ہے ؛ یعنی ہر وہ کام جسے ذات الھی مستقلا انجام دے سکتی ہے یہ ذاتیں اس کی پیروی کر کے انجام دے سکتی ہیں «یاابن آدم! أنا أقول للشیء كن فیكون، أطعنی فیما أمرتُك، أجعلك تقول للشیء كن فیكون» ۔
ہ ۔ «إلاّأنهم عبادك و خلقك فتقها و رتقها بیدك بدؤها منك و عودها إلیك» ان ذوات مقدس کے عدم استقلال کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ان کے تکوینی و تشریعی اختیارات ان کے منصب خلافت الہی کا نتیجہ ہیں ۔ عبودیت کا تمام صفات پر مقدم ہونا اسی معنی کا بیان گر ہے ۔/۹۸۹/ف۹۷۲/