رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بعلبک صوبے کے شہر«جدیدة الفاکهة» کے کلسیا «سیدة بشارة» کے اسقف اعظم برنارڈ بشور نے کا کہنا تھا: حضرت عیسی(ع) کی ولادت کے جشن میں بقائے باہمی ، امن و محبت اور دوسروں سے پیار کی تعلیمات پر تاکید کی جاتی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ جشن مسیح(ع) میں مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں اور انکو ہم دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
برنارڈ بشور جو العین میں «حضرت الیاس(ع)» کلیسا کے بھی پادری ہے کا کہنا تھا: میلاد مسیح(ع) میں ہمارے مسلمان بھای شریک اور کلیسا میں حضرت مریم(س) و حضرت عیسی(ع) کی شان میں اترنے والی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ انسانوں میں محبت اور رواداری تمام انبیاء کی ہدایت تھی اور ہم سب کو اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔
برنارڈ بشور نے لبنان میں حضرت مسیح(ع) کے جشن کے حوالے سے کہا کہ تمام گلیوں اور کلیساوں کو سجایا جاتا ہے اور دعاوں کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ایک دوسرے کے پاس آنا اور تحفہ دینا بھی پروگرام کا حصہ ہے جو بالخصوص حضرت عیسی(ع)، کی ولادت کی رات یعنی چوبیس دسمبر کی رات کو منایا جاتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ بیروت مین شہر سے باہر بھی لوگ میلاد مسیح(ع) کے حوالے سے «بعلبک ــ هرمل» کے کلیسا میں زیارت کے لیے جاتے ہیں مگر اس سال مظاہروں اور اقتصادی مشکلات سے یہ متاثر ہوسکتا ہے۔
لبنانی اسقف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حضرت مسیح(ع) کی ولادت وحدت اور محبت کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے اور اسی حوالے سے لبنان میں اس دن کو قومی عید کے دن کے حوالے سے عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ حضرت عیسی(ع) دوستی محبت اور امن کے لیے مبعوث ہوئے اور ضرورت ہے کہ ہم ان تعلیمات کے فروغ کے لیے ملکر کام کریں۔
انکا کہنا تھا کہ امن و دوستی کے فروغ کے لیے نسل نو کی تربیت آغاز سے کرنے کی ضرورت ہے جیسے جاپان میں بچوں کو پانچ سال کی عمر سے دوسروں کے احترام کا درس دیا جاتا ہے ایسے ہی ضرورت ہے سب اس کے لیے نسل نو کی تربیت پر شروع سے توجہ دیں۔
لبنانی اسقف نے مغرب کی بدترین اخلاقی فضاء اور ہم جنس پرستی، سقط جنین اور مادی گرائی کو بدترین قرار دیتے ہویے کہا کہ ایسا معاشرہ مثالی نہیں ہوسکتا ہے اور اس سے ہٹ کر ادیان کی تعلیمات پر حقیقی انداز میں عمل سے معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
برنارڈ بشور نے عراق،شام، لبنان میں عیسایی افراد اور مسلمان حکومتوں کے حوالے سے کہا کہ دو ہزار سال سے ہم یہاں موجود ہیں مگر سب لوگ مذہبی عقائد کے حوالے سے مکمل آزاد ہیں اگرچہ اخری سالوں میں داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی وجہ سے مظالم کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ مسلمان حکومتوں کو چاہیے کہ وہ انبیاء کی تعلیمات کے مطابق اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دیں اور اسی میں سب کی بقاء اور کامیابی پوشیدہ ہے۔/۹۸۸/ن