رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام اپنی سالانہ رپورٹ میں دعوی کیا کہ یمن پر سعودی اتحاد کے فضائی حملوں میں یمنی بچوں کی شہادت اور یا جسمانی طور پر انکے معذور ہونے میں کمی آنے کی وجہ سے سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے یہ دعوی بھی کیا کہ سعودی اتحاد نے بچوں کی حفاظت کیلئے بھی اقدامات کئے ہیں تاہم انہوں نے ان اقدامات کی جانب اشارہ نہیں کیا۔
اقوام متحدہ نے اکتوبر 2017 میں جارح سعودی اتحاد کی جانب سے 683 بچوں کو شہید کرنے اور یمن کے کئی اسکولوں پر حملہ کرنے کی وجہ سے سعودی اتحاد کو بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی لسٹ میں شامل کیا تھا۔
یہ پہلا اتفاق نہیں کہ سعودی عرب کا نام اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں چلے جانے کے بعد دوبارہ خارج کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی 2016 میں بان کی مون کے زمانے میں اقوام متحدہ نے سعودی عرب کا نام ایک قلیل مدت کے لئے بچوں کے حقوق پامال کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اُس موقع پر اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے یہ کہا تھا کہ بلیک لسٹ سے نام نکالنے کے لئے سعودی عرب اقوام متحدہ پر سخت دباؤ ڈال رہا ہے اور ساتھ ہی اُس نے مالی امداد روک دینے کی بھی دھمکی دی ہے۔
آخر کار اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں سعودی عرب کا نام شامل ہو جانے کے ایک دن کے بعد بان کی مون نے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی اور سعودی عرب کے دباؤ کے سامنے تسلیم ہو کر اُس کا نام بلیک لسٹ سے خارج کر دیا۔ اس اقدام کے بعد بان کی مون کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی کڑی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ یمن میں سعودی جارحیت کے نتیجے میں اب تک کم از کم ساڑھے چھے ہزار بچے شہید و زخمی ہو چکے ہیں۔