تحریر: حجت الاسلام سید ظفر عباس رضوی قم المقدسہ
ائمہ معصومین علیہم السلام کی ہر فرد علم و شرف و کمال اور فضیلت کے اعتبار سے برابر ہے اور سب کے سب انسان کامل ہیں، اور جتنی بھی خوبی اور اچھائی پائی جاتی ہے اس میں سب برابر کے شریک ہیں اور کسی بھی اعتبار سے ان کے اندر کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے اس لئے کہ سب ایک ہی نور کے ٹکڑے ہیں۔
خداوند عالم کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمارے لئے ایسی ایسی شخصیتوں اور ہستیوں کو اسوہ اور آئیڈیل قرار دیا ہے جو ہر طرح کی برائی سے دور ہیں اور سراپا خیر ہیں۔
خدا کا یہ بھی شکر ہے کہ ان ہستیوں کی محبت ہمارے دلوں میں پائی جاتی ہے اس لئے کہ ان سے وہی محبت کرتا ہے جو پاک ہوتا ہے۔
ایسے تو ہمارے سارے معصوم ہر لحاظ سے برابر ہیں لیکن معصومین(ع) میں بھی ہمارے چھٹے امام کی شخصیت منفرد نظر آتی ہے اور مذہب تشیع آپ ہی کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے آپ کو رئیس مذہب تشیع کہا جاتا ہے اور ہماری فقہ بھی فقہ جعفری کے نام سے جانی جاتی ہے،
"مکتب تشیع کیوں امام صادق علیہ السلام کے نام سے جانا جاتا ہے"
ہمارے ذہن میں ایک بات آتی ہے کہ مکتب اور مذہب تشیع کیوں امام صادق علیہ السلام کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے اس کا جواب اس طرح سے دیا جا سکتا ہے کہ تبلیغ دین کا جو موقع اور فرصت امام صادق علیہ السلام کو ملا کسی اور معصوم کو وہ موقع نہیں ملا ۔
1- امام صادق علیہ السلام کی امامت کا دور تیس سال سے زیادہ ہے اگر چہ بعض اور اماموں کی امامت کا زمانہ تیس سال سے زیادہ ہےلیکن جو موقع امام صادق علیہ السلام کو ملا وہ کسی اور امام کو نہیں ملا"
2- امام صادق علیہ السلام کا زمانہ علم، فقہ، کلام مناظرہ، حدیث و روایت، بدعت، گمراہی مختلف مذہب کے مختلف عقیدہ کا زمانہ تھا اور یہ بہترین موقع تھا کہ ایک عالم انسان اپنے علم کا اظہار کرے اور باطل مذہبوں کی جڑوں کو اکھاڑ کے پھینک دے اور مذہب حقہ کو دنیا کے سامنے ظاہر اور آشکار کرے"
3-امام صادق علیہ السلام کے زمانہ میں بنی ہاشم ایک حد تک چین و سکون اور آسائش کی زندگی گزار رہے تھے لیکن دوسرے اماموں کی زندگی میں ایسا نہیں تھا بلکہ دوسرے ائمہ حکومت کے زیر نظر اور ان سختیوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے امام علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور امام کو قدرت اور ظاہری حکومت نہیں ملی لیکن امام علی علیہ السلام اس مختصر سی مدت میں جنگ اور بدعت و گمراہی سے مقابلہ کرتے رہے اور امام صادق علیہ السلام کی طرح علوم کو نشر کرنے کا وہ موقع نہیں مل سکا"۱
لہذا علوم و معارف کے نشر کرنے کا جو موقع امام صادق علیہ السلام کو ملا وہ کسی اور کو نہیں ملا،
واقعا ایسا ہی ہے اگر ہم امام صادق علیہ السلام کے شاگردوں پہ نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ امام علیہ السلام نے کس طرح سے تبلیغ دین کی ہے اور کس طرح سے معارف دین کو دنیا کے سامنے ظاہر اور آشکار کیا ہے،
اگر ہم امام علیہ السلام کے شاگردوں پہ نظر ڈالیں تو آپ کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے،
شیخ مفید علیہ الرحمہ نے آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار بیان کی ہے جو ثقہ تھے۔
"آپ کے بعض شاگرد"
1-ابان بن تغلب
ابان بن تغلب نے چوتھے، پانچویں اور چھٹے امام کا زمانہ دیکھا اور درک کیا ہے اور کافی زیادہ حدیثیں نقل کی ہیں
ابان بن تغلب سے امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: "اِجلِسْ في مَسجدالمَدينةِ و أفتِ الناسَ فإنّي اُحِبُّ أن يُرى في شِيعَتي مِثلُكَ "مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کے لئے فتوا دو اور احکام الہی کو بیان کرو اس لئے کہ مجھے پسند ہے کہ میرے شیعوں کے درمیان تمہارے جیسے لوگ رہیں"
امام صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شاگرد(ابان بن عثمان) سے فرماتے ہیں:
"ابان بن تغلب نے تیس ہزار حدیثیں مجھ سے نقل کی ہیں ان کو میرے قول سے بیان کرو"
2-برید بن معاویہ عجلی
یہ بھی امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے اصحاب میں سے ہیں اور ان دو اماموں سے روایت نقل کی ہے برید بن معاویہ ان چھ لوگوں (زرارہ بن اعین، معروف بن خربوذ مکی، ابو نصیر اسدی، فضیل بن یسار، محمد بن مسلم طائفی، برید بن معاویہ عجلی) میں سے ہیں جو اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ تھے۔
برید ان لوگوں میں سے ہیں جن کو امام صادق علیہ السلام نے بہشت کی خوشخبری دی ہے آپ نے فرمایا: مخبتین(متواضع اور خاشع) لوگوں کو بہشت کی خوشخبری دو اس وقت فرمایا: وہ لوگ برید بن معاویہ، محمد بن مسلم، ابو بصیر لیث مرادی اور زرارہ بن اعین ہیں"
3- ابو حمزہ ثمالی
امام صادق علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی کو بلانے کے لئے کسی کو بھیجا وہ بقیع گئے ہوئے تھے جب امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "جب تم کو دیکھتا ہوں تو سکون و آسائش محسوس کرتا ہوں"
ابو بصیر کا کہنا ہے کہ میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا امام علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی کے بارے میں پوچھا میں نے عرض کیا وہ مریض ہیں امام نے فرمایا جب ان کے پاس جانا تو میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ فلاں مہینہ میں فلاں دن دینا سے کوچ کرو گے"
4- زرارہ بن اعین
زرارہ کے لئے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:"لولا زرارة و نظراؤہ لظننت أنّ أحادیث أبی علیہ السلام ستذهب"اگر زرارہ اور زرارہ جیسے لوگ نہیں ہوتے تو میرے بابا کی حدیثیں محو اور ختم ہو جاتیں"
5-حمران بن اعین
"حمران بن اعین شیبانی زرارہ کے بھائی ہیں اور انھوں نے امام باقر اور امام صادق علیہما السلام سے حدیثیں نقل کی ہیں" امام صادق علیہ السلام حمران کی وفات کے بعد فرماتے ہیں: "مات والله مؤمنا"خدا کی قسم حمران با ایمان دنیا سے گئے"
ایک دوسری جگہ پہ آپ فرماتے ہیں:"حمران مؤمن من أهل الجنة لا يرتاب أبدا، لا و اللّه، لا و اللّه"
"حمران اہل بہشت کے مومن ہیں کہ کبھی بھی اپنے دین میں شک و تردید کا شکار نہیں ہوئے، خدا کی قسم ہرگز نہیں خدا کی قسم ہرگز نہیں"
6- جابر بن یزید جعفی کوفی
"جناب جابر نے صرف امام صادق علیہ السلام سے ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں اور اگر کوئی جو حدیثیں ان سے نقل ہوئی ہیں ان کی تحقیق کرے تو اسے پتہ چلے گا کہ وہ حامل اسرار علوم اہل بیت علیہم السلام تھے"
اس کے علاوہ امام علیہ السلام کے اور بھی شاگرد ہیں جیسے صفوان جمال، عبداللہ بن ابی یعفور، معلی بن خنیس، محمد بن علی بن نعمان، ہشام بن حکم، مفضل بن عمر وغیرہ۔
تو اگر ہم دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ امام صادق علیہ السلام نے کس طرح سے شاگردوں کی پرورش کی ہے اور معارف دین و معارف اہل بیت علیہم السلام کو کس طرح سے نشر و عام کیا ہے کہ آج پورا مذہب تشیع آپ کا رہین منت ہے۔
لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ امام علیہ السلام کے بتائے ہوئے معارف اور علوم کو حاصل کریں اور دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ ہم بھی امام علیہ السلام کے نقش قدم پہ چل سکیں اور ہمارا بھی شمار امام علیہ السلام کے حقیقی چاہنے والوں میں ہونے لگے-
آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم علوم محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں اور اسے پوری دنیا میں نشر کرسکیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: پرتوی از زندگانی امام صادق علیہ السلام ص293 ناشر- دانشگاہ امام صادق علیہ السلام تہران
۲: ارشاد شیخ مفید ج2 ص179 ناشر- کنگرہ شیخ مفید قم
۳: فہرست شیخ طوسی ص44 ناشر- مکتبة المحقق الطباطبائی قم
۴: پرتوی از زندگانی امام صادق علیہ السلام ص216 ناشر- دانشگاہ امام صادق علیہ السلام تہران
۵: بحارالانوار ج46 ص345 ناشر- دار احیاء التراث العربی بیروت
۶: پرتویاز زندگانی امام صادق علیہ السلام ص219 ناشر- دانشگاہ امام صادق علیہ السلام تہران)
۷: پرتوی۔۔۔۔۔ص220 ناشر۔۔۔۔
۸: پرتوی۔۔۔۔ص۔۔۔ناشر۔۔۔
۹: الفصول المهمة في أصول الائمہ ج1 ص588 ناشر- موسسہ معارف اسلامی امام رضا علیہ السلام قم
۱۰: رجال علامہ حلی ص63 ناشر- دارالذخائر نجف اشرف
۱۱: رجال الکشی ص180 ناشر-موسسہ نشر دانشگاہ مشہد
۱۲: پرتوی از زندگانی امام صادق(ع) ص223 ناشر- دانشگاہ امام صادق علیہ السلام تہران
/۹۸۸/ن