02 September 2013 - 00:08
News ID: 5863
فونت
25 شوال یوم شھادت امام ششم کے موقع پر:
رسا نیوز ایجنسی – مختلف میدانوں شاگردوں اور ماہر فن کی تربیت امام جعفر صادق علیہ السلام کا خاصہ شمار کیا جاتا ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد فقط شیعہ نہیں بلکہ بہت سارے شاگردوں کا تعلق سنی مذھب سے ہے ، اھلسنت کے ائمہ اربعہ – حنبل، مالک ، ابوحنیفہ اور شافعی - جن پر سنی فقہ ہی نہیں بلکہ سنی مذھب کی بنیادیں استوار ہیں خود اپ کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا عصر امامت تاریخ اسلام کا وہ سنہرا صفحہ ہے جس میں ہر زمانہ سے زیادہ علم و دانش، حقیقی اسلام اور خالص اسلامی ث
امام صادق عليہ السلام

 

سید اشھد  حسین نقوی

 

عصر امام جعفر صادق علیہ السلام میں دو اسلامی حکمرانوں کے آپسی ٹکراو اور جنگ وجدال نے اپ کے لئے یہ زمنیہ فراھم کیا کہ اپ اپنے جد کے دین اور فراموش شدہ اسلامی نظریات کی بخوبی ترویج کرسکیں ۔


مختلف میدانوں میں شاگردوں کی تربیت کے حوالہ سے عصر امام صادق(ع) تاریخ اسلام کا وہ سنہرا دور ہے جہاں تاریخ سینہ پر جلی حرفوں سے امام جعفر صادق علیہ السلام لکھا گیا، امام علیہ السلام نے زرارة، هشام بن حکم، هشام بن سالم، ابان بن تغلب، مؤمن طاق، محمد بن مسلم جیسے دیگر شاگرد تربیت کر کے اسلامی معاشرہ کے حوالہ کئے، جن کا سینہ علم کی دولت سے مالا مال ، جن کی فکر ہر الجھی علمی گتھیوں کی حل اور جن کوشش اسلامی معاشرہ میں امامت کی حلاوت گھول دینا تھا ، حالات سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے علم کے شمع کی لَو انتی زیادہ بڑھا دی تھی کہ اپنے تو اپنے، بیگانے بھی پروانوں کے مانند اس کے آس پاس چکر کاٹنے لگے ، خود کو اس بحر بے کراں کا شاگرد کہلانے میں کسی کو آر نہ ہوتا، شیعہ تو شیعہ، سنی مذھب کی ریڑھ کی ہڈیوں نے بھی اپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا ، ائمہ اربعہ – حنبل، مالک ، ابوحنیفہ اور شافعی - معمولی شاگرد کے عنوان سے اپ کے سامنے بیٹھے اور جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے علم کی بھیک لے کر اٹھے تو مذھب اھلنست کی بنیاد بن گئے ۔

 

عصر امام جعفر صادق علیہ السلام


نظریاتی اور ثقافتی لحاظ سے عصر امام صادق علیہ السلام فکری اور تہذیبی تحریکوں کا دور تھا ، اس زمانہ کے اسلامی معاشرہ میں بے انتہا کسب علم کا جوش و جزبہ موجود تھا اور مختلف اسلامی علوم؛ جیسے علم قرآت قران کریم ، تفسیر قران ، علم حدیث ، علم فقہ اور علم کلام و عقائد یا غیر اسلامی یعنی انسانی علوم؛ جیسے طب ، فلسفہ، نجوم، حساب اور دیگر علوم پر مہارت حاصل کرنا لوگوں کی رگ رگ میں سما چکا تھا، جس کے پاس تھوڑا سا بھی علم ہوتا یا صاحب نظر ہوتا تو وہ اس علم کو اظھار کرنے کی کوشش کرتا اور علم کے بازار میں خریدار کے درپہ ہوتا ۔ لوگوں کے اندر عجیب و غریب قسم کی علم کی تشنگی پیدا ہوچکی تھی جس کا جواب امام جعفر صادق علیہ السلام ضروری تھا  ۔


ہم یہاں پر وہ اسباب و علل جو عصر امام جعفر صادق علیہ السلام میں علم کی تشنگی میں موثر اور علمی تحریک کا سبب رہے ہیں ان کا بطور خلاصہ تذکرہ کررہے ہیں : 


1-  اسلام میں فکر و عقیدہ کی آزادی ۔ اگر چہ عباسی خاندان اس آزادی میں بے اثر نہیں تھا مگر اس آزادی کی بنیاد اسلامی تعلیمات ہیں ، کیوں کہ اگر عباسی خاندان اسے روکنا بھی چاہتا تو بھی اسے نہ روک پاتا ۔


2- اس زمانہ کا ماحول مکمل مذھبی ماحول تھا ، لوگ مذھبی اور دینی احساسات و جزبات کے تحت تاثر تھے، تحصیل علم کے سلسلہ میں مرسل آعظم صلی اللہ علیہ و والہ وسلم کی تاکید ، پڑھنے پڑھانے اور غور فکر کے سلسلہ میں قرآن کریم کی دعوت،  اس تحریک اور جوش و ولولہ کی اساس و بنیاد ہے ۔ 


3- اسلام لانے والی قومیں اور ملتیں معمولا علم و فکر کی دولت سے مالا مال تھیں ، اس زمانہ میں بعض قوموں جیسے ایرانیوں ، مصریوں اور شامیوں کا مہذب افراد اور پڑھے لکھوں اور مہذب افراد میں شمار ہوا کرتا تھا ، یہ لوگ اسلامی تعلیمات کی گہرایوں کو سمجھنے کے لئے تحقیق و تلاش اور مسلمان دانشوروں سے تبادلہ نظر کیا کرتے تھے ۔


4-  غیر مسلمانوں خصوصا اھل کتاب کے ساتھ مذھبی رواداری یا مسالمت آمیز زندگی ۔ مسلمان ، اھل کتاب کو برداشت کرتے تھے اور انہیں اپنے مذھبی اصولوں کے خلاف نہیں شمار کرتے تھے ، اس زمانہ میں اھل کتاب کا پڑھے لکھوں اور سمجھداروں میں شمار ہوکرتا تھا ۔ مسلمانوں کی ان سے علمی گفتگو ہوا کرتی جو علمی مناظروں کا باعث بنتی تھی  ۔ کتاب سیرہ پیشوایان ، مولف مھدی پیشوائی ، صحفہ 354

 

مختلف فرقے اور مذاھب کی پیداوار


امام صادق علیہ ‌السلام کا زمانہ افکار و نظریات کے ٹکراو ، مختلف فرقے اور مذاھب کی پیداوار کا زمانہ تھا ، اھل کتاب کے عقائد اور یونانی دانشوروں کے نظریات سے اسلامی نظریات کے ٹکراو نے مختلف سوالات و اشکلات کو جنم دیا ۔
اس زمانہ میں معتزلہ ، جبریہ ، مرجئہ ، غلات ، زنادقہ ، مشبہ ، متصوفہ ، مجسمہ ، تناسخیہ اور اس کے مانند فرقوں نے جنم لیا جن میں سے ہر کوئی اپنے نظریات کی ترویج و تبیلغ میں مصروف تھا ۔


اس کے علاوہ اسلامی علوم کے مختلف میدانوں میں بھی مسلمان دانشوروں کے درمیان اختلافات رونما ہوئے، جیسے علم قرائت قرآن ، تفسیر ، حدیث ، فقہ اور علم کلام میں بحثوں اور نظریات کا بازار گرم رہتا اور ہر کوئی کسی سمت نظر دیتا اور اپنے عقیدہ کی طرفداری کرتا ۔ کتاب سیرہ پیشوایان ، مولف مھدی پیشوائی ، صحفہ 355


قیاس کے سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا مناظرہ


انحرانی اور خرافاتی باتوں میں سے جو چیزعصر امام جعفر صادق علیہ السلام میں برسر زبان آئی اور آج تک اس کا سلسلہ باقی ہے وہ «قیاس» ہے ، ابوحنفیہ جو اہلسنت کے چار اماموں میں سے ایک ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے شاگرد بھی ہیں قیاس کے تحت فتوے دیا کرتے تھے ، قیاس ایک منطقی تمثیل ہے مثال کے طور پر کہا جائے کہ خرمہ کی شراب (نبیذ) کا حکم انگور کی شراب کے مانند ہے کیوں کہ دونوں ہی نشہ آور ہیں ، اس طرح کا قیاس جسے «قیاس مستنبط‌ العلة» کہا جاتا ہے شیعہ نظریہ کے تحت باطل اور حرام ہے ، بہت سارے مواقع ذکر کئے گئے ہیں کہ اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ابوحنیفہ سے مناظرہ ہوا اور امام علیہ السلام نے بارہا و بارہا انہیں اس کام سے منع کیا، مگر افسوس انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی بات نہ مانی اور اپنی بات پر اڑے رہے ، مندرجہ ذیل مناظرہ انہیں مناظروں میں سے ایک ہے ۔


ایک دن ابو حنیفہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کی غرض سے اپ کے دولت کدہ پر گئے اور اپ سے ملاقات کی اجازت مانگی تو امام علیہ السلام نے انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی ۔


ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ میں کچھ دیر کھڑا رہا تو کوفہ کے کچھ لوگ ائے اور انہوں نے امام علیہ السلام سے ملاقات کی اجازت مانگی تو امام علیہ السلام نے انہیں اجازت دے دی ، میں بھی انہیں کے ساتھ اپ کے گھر میں داخل ہوگیا اور جب اپ کی خدمت میں پہونچا تو اپ سے کہا :


بہتر ہے کہ اپ اپنا کوئی نمائندہ کوفہ روانہ کریں تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو صحابی رسول صلی الله علیه و آله وسلم جناب سلمان کو برا بھلا کہنے سے روک سکے کیوں کہ اس شھر میں دس ہزار سے زیادہ لوگ رسول اسلام کے انصاروں کو برا بھلا کہتے ہیں ۔


امام علیہ السلام : اہل کوفہ میری بات نہیں مانیں گے ۔


ابوحنیفہ : کس طرح ممکن ہے کہ اپ کی بات نہ مانیں گے جبکہ اپ فرزند رسول خدا ہیں ؟


امام علیہ السلام : تم خود ان میں سے ایک ہو جو میری بات نہیں مانتا، کیا بغیر میری اجازت کے میرے گھر میں داخل نہیں ہوئے ، کیا بغیر میری اجازت کے نہیں بیٹھ گئے اور کیا بغیر میری اجازت کے گفتگو شروع نہیں کی ؟


اس کے بعد امام نے فرمایا : میں نے سنا ہے کہ تم قیاس کی بنیاد پر فتوے دیتے ہو ؟


ابو حنیفہ: ہاں


امام علیہ السلام : وای ہو تم پر، سب سے پہلے جس نے اس بنیاد پر نظریہ قائم کیا وہ شیطان تھا،  جب خداوند متعال نے شیطان کو سجدہ کا حکم دیا تو اس نے کہا کہ « میں سجدہ نہیں کروں گا کیوں کہ تو نے مجھے اگ سے بنایا اور انہیں مٹی سے اور مٹی اگ سے بہتر ہے » ۔

 

اس کے بعد امام علیہ السلام نے «قیاس» کے بطلان میں اسلامی قوانین کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا : تمھاری نگاہ میں کسی کا ناحق قتل کرنا اہم ہے یا زنا ؟ 


ابوحنیفه: ناحق قتل کرنا ۔


امام علیہ السلام : تو پھر کیسے قتل کے اثبات میں دو شاہد کی کافی ہیں مگر زنا کے اثبات میں چار گواہ کی ضرورت ہے ؟ کیا اسلام کے قوانین قیاس کے ہمسو ہیں ۔


ابوحنیفہ : نہیں ۔


امام علیہ ‌السلام : پیشاب زیادہ گندہ ہے یا منی ؟


ابوحنیفہ : پیشاب ۔


امام علیہ ‌السلام : تو پھر کس طرح خداوند متعال نے پیشاب کی صورت میں وضو کرنے کو کہا مگر منی نکلنے کی صورت میں غسل کا حکم دیا ؟ کیا یہ حکم بھی قیاس کی بنیادوں کے مطابق ہے ۔


ابوحنیفہ : نہیں  ۔


امام علیہ ‌السلام : نماز اہم ہے یا روزہ ؟


ابوحنیفہ : نماز ۔


امام علیہ ‌السلام : تو پھر کس طرح حائضہ عورت پر روزہ کی قضا واجب ہے مگر نماز کی قضا واجب نہیں ہے ؟  کیا یہ حکم بھی قیاس کی بنیادوں کے تحت ہے ؟


ابوحنیفہ : نہیں ۔


امام علیہ ‌السلام : مرد زیادہ کمزور ہے یا عورت ؟


ابوحنیفہ : عورت ۔


امام علیہ‌السلام : تو پھر کس طرح مرد کی میراث عورت کے دو برابر ہے ؟ کیا یہ حکم بھی قیاس کی بنیادوں کے مطابق ہے ؟


ابوحنیفہ : نہیں ۔


امام علیہ السلام : کیوں خداوند متعال نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی دس درھم چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ، جب کہ اگر کوئی کسی کا ہاتھ کاٹ دے تو اس کی دییت پانچ سو درھم ہے ؟ کیا یہ حکم بھی قیاس کی بنیادوں کے مطابق ہے ؟


ابوحنیفہ : نہیں ۔


امام علیہ ‌السلام : ہم نے سنا ہے کہ ایت «ثُمّ لَتُسْئَلنّ یؤمئذٍ عنِ النّعیم؛ قیامت میں یقینا نعمتوں کے سلسلہ میں تم سبھی سے سوال کیا جائے گا » کی تم اس طرح تفسیر کرتے ہو کہ خداوند متعال لذیذ غذاوں اور گرمیوں میں ٹھنڈے پانی پلانے کا مواخذہ کرے گا ۔


ابوحنیفہ : ہاں ، ایسا ہی ہے ، میں نے اس ایت کی یہی تفسیر کی ہے ۔


امام علیہ ‌السلام : اگر کسی نے اپنے گھر پر تمھاری دعوت کی ، تمھیں لذیذ غذائیں کھلائیں ، ٹھنڈا پانی پلایا اور پھر اس میزبانی کی بناء پر تم پر احسان جتائے تو تم اس کے سلسلہ میں کیا نظریہ قائم کرو گے ؟

 

ابوحنیفہ : کہوں گا کہ بخیل انسان ہے ۔


امام علیہ السلام : کیا خدا بخیل ہے ،[ کہ قیامت کے دن اپنی دی ہوئی نعمتوں اور غذاوں کے سلسلہ میں ہمیں مواخذہ اور ہمارا محاکمہ کرے گا ]؟


ابوحنیفہ : تو پھر جن نعمتوں کے سلسلہ میں مواخذہ کی گفتگو ہے اس سے مراد کیا ہے ؟


امام علیہ ‌السلام : اس مراد ہم اہلبیت رسول علیھم السلام سے دوستی و محبت ہے ۔ بحارالانوار/ دار احیاء تراث عربی/ ج 10/ ص220
 
افاضل شاگرد


«هشام بن سالم» کہتے ہیں کہ ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کے انصاروں کا ایک گروہ اپ کے پاس بیٹھا تھا ، ایک شامی نے امام کی بزم میں انے کی اجازت مانگی تو امام نے اجازت دی اور وہ آکر امام کے پاس بیٹھ گیا ، تو امام نے اس سے پوچھا کیا چاہتے ہو ؟


شامی : میں نے سنا ہے کہ اپ لوگوں کے تمام سوالات اور مشکلات کا جواب دیتے ہیں ، میں بھی اپ سے مناظرہ کے لئے ایا ہوں ؟


امام علیہ السلام : کس سلسلہ میں ؟


شامی : قرات قران کے سلسلہ میں


امام علیہ السلام نے «حمران» کی جانب رخ کیا اور فرمایا: اس ادمی کا جواب دو ۔


شامی : میں اپ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں ، حمران سے نہیں ۔


امام علیہ السلام : اگر تم نے حمران کو محکوم کردیا تو گویا ہمیں محکوم کردیا ۔


شامی نے مجبورا حمران سے گفتگو شروع کی ، شامی نے جو کچھ بھی پوچھا حمران سے مستحکم اور مستدل جواب سنا ، اس طرح کہ امام علیہ السلام نے «ابان بن تغلب» کی طرف رخ کیا اور فرمایا : اس سے مناظرہ کرو ، ابان نے بھی اس کے فرار کے تمام راستہ بند کردئے اور اسے محکوم کردیا ۔


شامی : میں فقہ کے سلسلہ میں اپ سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ۔


امام علیہ السلام نے «زراره» سے فرمایا : اس سے مناظرہ کرو ، زرارہ نے اس سے بحث کرنا شروع کیا اور تیزی سے اسے خاموش کردیا ۔


شامی : میں علم کلام میں اپ سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں تو امام نے «مومن طاق» کو حکم دیا کہ اس سے مناظرہ کرے ، ابھی وقت نہیں گزرا تھا کہ شامی مومن طاق سے بھی ہار گیا ۔


اسی طرح شامی نے جب توحید ، امامت ، استطاعت اور خیر و شر کے انجام یا ترک پر انسان کی قدرت و توانائى کے سلسلہ سے مناظرہ کی درخواست کی تو امام علیہ السلام نے بالترتیب حمزه طیار، هشام بن سالم و هشام بن حکم کو مناظرہ کا حکم دیا اور تینوں ںے محکم دلیلوں کے ذریعہ شامی کو خاموش کردیا ۔  اس منظر کو دیکھ کر امام علیہ السلام کے ہونٹوں پر ہنسی کا سمان چھا گیا ۔


شامی : ایسا لگتا ہے کہ اپ ہم پر یہ ظاھر کرنا چاہتے ہیں کہ اپ کے شاگردوں میں ایسے لوگ موجود ہیں ؟


امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ایسا ہی ہے ، اور پھر اپ نے فرمایا کہ ای شامی ، حمران نے اپنی باتوں میں تمھیں الجھا کر رکھ دیا، تو متحیر اور مغلوب ہوا ، حمران نے تم سے ایک سوال پوچھا مگر تیرے پاس اس کا جواب نہ تھا ، ابان بن تغلب نے حق و باطل ملا کر تجھ پر کامیابی حاصل کی ، زرارہ نے قیاس کے ذریعہ تجھ سے مناظرہ کیا اور اس کا قیاس تجھ پر غالب اگیا، مگر طیار اس کبوتر کے مانند تھے جو کبھی زمین پر ہوتے اور کبھی اسمان پر، کیوں کہ تم وہ کبوتر تھے جس کے پاس پرواز کی قدرت نہ ہو ، ھشام بن  سالم بھی کبھی ٹھہر جاتے تو کبھی چل پڑتے ، مگر ھشام بن حکم نے جو کچھ بھی کہا وہ سچ تھا اور انہوں نے تمھیں مہلت نہیں دی کہ تو اپنا لعاب دہن تک گھونٹ سکے ۔


ای شامی : خداوند متعال نے حق و باطل کو ملا کر اھل دنیا کے سامنے پیش کیا اور پھر پیغمبروں کو حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرنے کے لئے بھیجا ، انبیاء اور اوصیاء کو حق و باطل کی تمییز دی اور پیغمبروں کو اوصیاء سے پہلے بھیجا تاکہ لوگوں کے سامنے اوصیاء کی معرفی کرسکیں ۔


ای شامی : اگر حق و باطل الگ الگ ہوتے تو لوگوں کو پیغمبروں اور اوصیاء کی ضرورت نہ ہوتی ، مگر خداوند متعال نے حق و باطل کو ملا کر پیش کیا تا کہ انبیاء اور ان کے جانشین حق و باطل کے درمیان فرق بیان کرسکیں ۔


شامی : جو بھی اپ کا ہم نشین ہو وہ کامیاب ہے ۔


حضرت صادق علیه‌ السلام نے فرمایا: پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله وسلم جبرئیل اور اسرافیل کے ہم نشین تھے، جبرئیل اسمان پر جاکر خدا کی وحی لاتے ، اگر ان کی جبرئیل کے ساتھ ہمنشینی ان کی کامیابی کا سبب ہے تو بھی میری ہم نشینی میں کامیاب ہو گا ۔


شامی : ہمیں اپنے شیعوں میں سے قرار دیں اور مجھے تعلیم دیں ۔


امام علیہ السلام نے ھشام کی جانب رخ کیا اور کہا : اسے تعلیم دو اور میں چاہتا ہوں کہ تمھارا شاگرد رہے ۔


على بن منصور و ابو مالک خضرمى کہتے ہیں کہ میں نے شامی کو حضرت صادق علیہ ‌السلام کی شہادت کے بعد دیکھا کہ شام سے ھشام کے لئے تحفے لایا ہے اور جب وہ واپس جارہا تھا ھشام نے عراق کے تحفے اس کے حوالہ کئے ۔ رجال کشی/ مؤسسہ نشر، مشهد یونیورسٹی / ص 275


اس واقعہ سے روشن کے ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بعض اصحاب کو بعض علوم میں خاص مھارت حاص تھی ،  اور وہ بھی اس حد تک کہ امام علیہ السلام علمی گفتگو ان کے حوالہ کیا کرتے تھے جو اپ کے شاگردوں کی علمی عظمت و بزرگی کی بیان گر ہے ، ان شاگردوں میں ھشام بن حکم کو امامت کے علوم میں خاص مہارت حاصل تھی جو منصب امامت کے بخوبی دفاع کیا کرتے تھے ، وہ اگر چہ کم سن تھے، مگر اتنا زیادہ اہمیت کے حامل تھے کہ امام علیہ السلام اپ کا خاص احترام کرتے تھے  ۔  امام صادق علیہ السلام نے اپ کے سلسلہ میں فرمایا کہ ھشام اپنی ہاتھ اور زبان سے میرے مددگار ہیں ، امامت کے اثبات میں عمرو بن عبید سے ان کا مناظرہ مشھور ہے جس میں اپ نے امام کو دنیا کا دل بناکر پیش کیا ہے ۔

 

توحید مفضل


کتاب توحید مفضل، حضرت امام صادق علیہ السلام کی وہ گراں سنگ یاد گار جو توحید اور خدا شناسی کے سلسلہ میں نہایت مفید اور قیمتی اثر شمار کیا جاتا ہے ، امام علیہ السلام نے "مفضل بن عمر" کو چار نشستوں میں اس کتاب کے مطالب بیان کئے جو «توحید مفضل» کے نام سے مشھور ہوئے ، اس کتاب کے مطالب کو مستقل کتاب کی صورت میں زیور طبع سے مزین کیا گیا اور اس پر شرحیں بھی تحریر کی گئی ہیں ۔ علامہ  مجلسی رحمة الله علیه کی کتاب بحارالانوار میں اس کتاب کا مکمل متن موجود ہے اور علامہ مجلسی رحمة الله علیه نے مستقل طور پر اس کا ترجمہ اور اس کی شرح بھی تحریر کی ہے، مناسب ہے کہ تشنگان علم توحید اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے غافل نہ ہوں اور اس کتاب کا ضرور بغور مطالعہ کریں ۔


عصر امام جعفر صادق علیہ السلام میں ابن ابی العوجاء نامی فرد جس کا تعلق دہریوں میں سے تھا جو دنیا کے خود بخود پیدا ہونے کا قائل اور خالق کا منکر تھا اس کا مفضل کا مناظرہ ہوا اور جب مفضل امام علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے تو حضرت نے ان سے کہا کہ دہریوں کے پاس جاکر دنیا ، حیوانات ، نباتات اور دیگر اشیاء میں موجود خدا کی حکمتوں کو بیان کریں تاکہ بابصیرت افراد اس سے عبرت حاصل کرسکیں اور مومنین اس سے اگاہی حاص کر کے آرامش و سکون حاصل کریں اور ملحدین اسے سن کر دنگ و حیران رہ جائیں، ہم نمونہ کے طور پر یہاں کچھ انہیں حکمتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں ۔


بچون کے رونے کا فائدہ : بچے کے دماغ میں رطوبت ہوتی ہے کہ اگر وہ رطوبت بچے کے دماغ میں رہ جائے تو بیماریوں جڑ ہو اور بچے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ، من جملہ اندھے پن کا سامنا کرنا پڑے ، بچے کا رونا اس مادہ کے باہر نکلنے سبب اور اس کی سلامتی کا ضامن ہے ، ماں باپ چوں کہ اس راز  سے اگاہ نہیں ہیں لھذا بچے کو یہ فائدہ نہیں پہونچنے دیتے ۔


 درندوں میں عقل و شعور کا فقدان : اگر درندے عقل و شعور کے مالک ہوتے تو انسانوں کے خلاف متحد ہوجاتے ، اور بدون شک انسانوں کو مشکلات سے روبرو کرتے ، حقیقتا اگر شیر ، چیتا، بھڑیا اور اس کے مانند درندے انسانوں کے خلاف متحدہ ہو جائیں تو کون ان سے مقابلہ کی طاقت رکھتا ہے ۔


اگر انسان دنیا میں سمجھدار اورعقل مند پیدا ہوتا : اگر بچہ دنیا میں سمجھدار اور عقل مند ہوتا تو پیدائش کے وقت دنیا کا انکار کردیتا، جب حیوانوں ، پرندوں اور دیگر موجودات سے روبرو ہوتا تو اس کی عقل و فکر متحیر ہوجاتی اور گمراہ ہوجاتا ، نیز اگر بچہ بافھم پیدا ہوتا تو دوسروں کے گود لینے ، دودھ پلانے ، کپڑے میں لپیٹے جانے ، جھولے میں سولائے جانے میں بہت زیادہ حقارت کا احساس کرتا ۔


انکھوں کی پلک : ای مفضل انکھوں کی پلک کے سلسلہ میں غور کرو، کہ کس طرح دیدہ کو پردے چھپا دیتے ہیں ، اور اس کے ساتھ حلقے اور جوڑ قرار دئے گئے تاکہ انسان جب چاہے تب اسے اوپر اٹھا سکے ، انکھوں کو غار کے درمیان رکھا گیا اور اس کی پردوں اور ابرووں کے ذریعہ حفاظت کی جاتی ہے ۔


دل اور اس کے پردے: ای مفضل کس نے دل کو سینہ کے بیچ قرار دیا، اور اسے ہڈیوں اور گوشت کے محکم و مضبوط پردے سے ڈھکا تا کہ چوٹ سے محفوظ رہ سکے ۔


سانس اور کھانے کی نلی: ای مفضل کس نے گلے میں دو نلی ایک اواز اور سانس کے لئے جو پھپھڑے سے متصل ہے اور دوسرے کھانے کی نلی قرار دی جو معدہ سے متصل ہے ۔


ای مفضل : کس نے گلے میں پردہ قرار دیا تاکہ پھیپھڑے میں کھانا نہ جا سکے اور انسان ہلاک نہ ہو ۔


ای مفضل : کس نے پھیپھڑے کو دل کو ٹھنڈا کرنے والا قرار دیا تا کہ دل کی حرارت انسان کی موت کا سبب نہ بنے ۔


امام صادق علیه‌ السلام مذھب شیعہ کے موسس یا مروج


ایک بات جو امام صادق علیہ السلام کے سلسلہ میں کہی جاتی وہ یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام مذھب شیعہ کے موسس ہیں کہ جو بلکل غلط ہے ، کیوں کہ امام صادق علیہ السلام مذھب شیعہ کے موسس نہیں ہیں یعنی امام صادق علیہ السلام کے زمانہ میں شیعہ مذھب کی بنیاد نہیں رکھی گئی کیوں کہ شیعہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھے ، بلکہ اپ شیعہ مذھب مروج اور مبین ہیں اور جیسا کہ ہم نے اوپر کی باتوں میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ عصر امام جعفر صادق علیہ السلام افکار و نظریات اور فرقوں کے پیدائش کا زمانہ ہے اس زمانہ میں شیعہ مذھب کا دفاع اور اس کی ترویج  امام جعفر صادق علیہ السلام کے کاندھے پر تھی اسی بنیاد پر بعض مورخین یہ فکر کرتے ہیں کہ شیعہ بھی دیگر فرقوں کے مانند عصر امام جعفر صادق علیہ السلام میں پیدا ہوا جبکہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ شیعہ کا وجود مرسل اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں  بھی تھا اور اس زمانہ میں بھی انہیں شیعیان علی کا خطاب دیا جاتا تھا جسیا کہ عثمان اور خلفاء راشیدین کے ماننے والوں کو شیعیان عثمان اور خلفاء راشیدین کا خطاب دیا جاتا تھا ۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬