تحریر: ارشاد حسین ناصر
چند دن قبل ہی ہم نے اپنے پیارے ملک پاکستان کا یوم آزادی منایا ہے، اس موقعہ پر خوشیوں و مسرتوں کا ہر طریقہ دیکھنے میں آیا، وہ بھی اس حال میں کہ ہمارے دل زخمی تھے، ان بیگناہ مارے جانے والوں کیلئے جنہیں سول ہسپتال کوئٹہ میں انتہائی سفاکیت سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ 8 اگست کو سول ہسپتال میں کالعدم گروہ کے ہاتھوں وکلا کا بے رحمانہ قتل آج بھی ہر ایک کو مغموم کئے ہوئے ہے۔ یہ کوئی معمولی قتل عام نہیں تھا، جسے روایتی انداز میں بھلا دیا جائے، بلکہ یہ ایک شعبے کا مکمل قتل عام تھا، یہ عدلیہ پر ایسا وار تھا جس کے اثرات ابھی دیر تک محسوس کئے جاتے رہینگے اور رہ رہ کے یاد آئینگے، تڑپائیں گے، یہ شہر ہمارے لئے ایک عرصہ سے دکھوں اور غموں کا مرکز بنا ہوا ہے، ہم نے اس شہر سے بہت دکھ اٹھائے ہیں، بہت درد پہنچایا گیا ہے یہاں، ہمارے قبرستان آباد کئے گئے ہیں، ہمارے دکھ بکھرے پڑے ہیں، دہشت گردی کا ناسور ارض پاک کو گذشتہ پینتیس برسوں سے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اس کی شروعات افغان جہاد سے ہوئی تھیں اور آج تک ہمارا پیارا ملک ناصرف یہ کہ اس دلدل سے نکل نہیں پایا بلکہ ہر گذرتے دن کیساتھ اس میں غرق ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ہم بطور شیعہ اس کا سب سے زیادہ شکار ہوئے، ہمیں چن چن کے مارا گیا، ہمیں اس مملکت خداداد کے ہر شہر اور ہر صوبے میں نشانہ بنایا گیا، ہمیں ہر طرح کی دہشت گردی کا شکار کیا گیا، ہمیں بسوں سے اتار کے مارا گیا، ہمیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، ہمیں بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا، ہمیں خودکش حملوں کا شکار کیا گیا، ہمیں مسجدوں میں مصروف عبادت، خدا کے حضور حاضری کے وقت خون میں لت پت کیا گیا، ہمیں درباروں پہ برگزیدہ ہستیوں کو سلام پیش کرتے چیتھڑوں میں بدلا گیا، ہمیں ماتم کی صداؤں اور نوحوں کی آوازوں میں شکار کیا گیا، ہمیں کورٹ، کچہریوں، بازاروں اور شاہراہوں پہ چن چن کے مارا گیا۔ ہم نے اس مملکت خداداد میں قیمتی ترین ڈاکٹرز دیئے، اساتذہ قربان کئے، پروفیسرز سے محروم ہوئے، شاعروں، ادیبوں کو گنوایا، علمائے کرام کی جدائی کا دکھ اور غم سہا، اس مملکت میں ہمیں آروں سے چیرا گیا، ہمارے گلے کاٹے گئے اور ویڈیوز ریلیز کی گئیں، ہمارے قیمتی ترین افراد ہم سے چھین لئے گئے، ہمیں بسوں سے اتار کے شناختی کارڈ چیک کرکے گولیوں سے بھونا جاتا رہا اور حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کے کان پر جوں تک نا رینگی۔
ہمیں چاروں صوبوں میں نشانہ بنایا گیا، ہمیں بلوچستان میں ہجرتوں پر مجبور کر دیا گیا، ہمارا راستہ روکا گیا، ہمیں گھروں میں دبک جانے پہ مجبور کیا جاتا رہا، ہمارے بنیادی ترین حقوق کو پائمال کیا جاتا رہا اور کسی نے خبر بھی نہ لی۔ ہمیں سرحد، کے پی کے، ڈیرہ اسماعیل خان اور کئی ایک شہروں میں گھر بار چھوڑنے اور خاندانی جائیدادوں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا، ہم چیخے چلائے، اپنے حقوق کی پائمالی پر حکمرانوں کے در پر دستک دی مگر بے سود رہا۔ ہم نے ایوانوں کے در پلائے مگر کوئی ہمارا درد آشنا سامنے نہ آیا، کوئی مسیحائی کرنے نہیں پہنچا۔ ہمیں کراچی اور اندرون سندھ میں روز ٹارگٹ جاتا رہا، ہمارا خون سڑکوں پہ بہایا جاتا رہا مگر کسی نے اس کا تدارک نہ کیا۔ ہمیں پنجاب میں چن چن کے مارا گیا، ہر ضلع ہماری مقتل گاہ بن گیا، ہمارے قاتلوں کو جیلوں مین کوٹھیوں جیسی سہولیات بہم پہنچائی جاتی رہیں اور ان کے گھروں کے اخراجات سرکاری خزانوں سے ادا ہوتے رہے۔
ہم نے مملکت کے حساس جغرافیائی ایریاز میں اپنی خوشی سے الحاق کیا تو ہمیں گلگت بلتستان میں اس سرزمین پاک سے وفاداری کی سزا دی گئی، ہمارے بنیادی آئینی حقوق پر انہتر برسوں سے ڈاکہ مارا گیا ہے، ہماری زمینوں، کھیت کھلیانوں اور چراگاہوں کو ہم سے چھینا جا رہا ہے، ہمارا لہو اس قدر ارزاں کر دیا گیا کہ ملک کے غداروں کو چھوٹ دے دی گئی کہ جو چاہے ان کے ساتھ کرو۔ دکھ اور غم کی یہ داستاں اس قدر طویل ہے کہ اس کا ہر صفحہ سرخ ہے، ہمیں مسجدوں میں قتل کیا گیا، ہماری مسجدیں اور امام بارگاہیں اللہ کے مہمانوں کے خون سے رنگین ہوتی رہیں، ہم عبادت کیلئے گھر سے نکلتے تو ہماری لاشیں واپس آتیں، ہم کاروبار کیلئے بازار کا رخ کرتے تو ہمیں راستے میں گولیوں سے بھون دیا جاتا، ہم کارِ پیغمبری کیلئے کالج، اسکول، یونیورسٹیز جاتے تو ہمیں دن دیہاڑے خون میں لت پت کر دیا جاتا، ہم لوگوں کی مسیحائی کیلئے اسپتال پہنچتے تو سفاک گروہ ہمیں ادھر ہی مسیحائی کرنے کی سزا دیتے پہنچ جاتے اور ہم مسیحائی کرتے مارے جاتے رہے۔ ہم علم کی خیرات بانٹتے مارے گئے، ہم ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے مارے گئے، ہم مارشلاؤں میں ظلم کا شکار ہوتے رہے، ہمیں جمہوریت کے دعویداروں نے ایک ایک ووٹ کے بدلے میں سولیوں پر لٹکوایا۔
ہمیں ذبح کیا گیا، ہمیں جلایا گیا، ہمیں خون میں نہلایا گیا، ہمیں جیلوں میں مروایا گیا، ہم نے ہتھیار نہیں اٹھائے، ہم ریاست کے سامنے نہیں آئے، ہم نے فورسز پر اسلحہ نہیں تانا، ہم نے ملک کے خلاف کوئی سازش نہیں کی، ہم استحکام پاکستان اور پاک وطن کی سلامتی کے پیامبر بنے رہے، ہم امن کے گیت گاتے رہے، ہم سلامتی کے بیج اگاتے رہے، ہم محبت کے چراغ جلاتے رہے اور خوشبوؤں کے سفیر بناتے رہے، مگر ہمیں نفرتوں کا شکار کیا گیا۔ ہمیں تعصب کی بدبو سے جواب دیا گیا، ہماری وطن سے محبت کو مشکوک دیکھا گیا، ہماری امن کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا، ہماری اتحاد و وحدت کی پالیسی کو مجبوری گردانا گیا، ہم کیا کرتے، کسی ملک دشمن کے ہاتھ لگ جاتے، کسی دوسرے کے ایجنڈے پر چل پڑتے، کسی کی لگائی آگ میں کھیل کا حصہ بن جاتے، نہیں ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ہم نے لاشوں کے درمیاں کھڑے ہو کر بھی کسی درخت کا پتہ تک نہیں توڑا، ہم نے جنازوں کے جلوسوں میں ٹریفک کے ایک سگنل تک کو نقصان نہیں پہنچایا، ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا، ہم نے ریاست کی بقا کا راستہ چنا، ہم نے مملکت کے استحکام کا راستہ چنا، ہم نے پاک وطن کی سلامتی کا راستہ اختیار کیا، ہم نے وفا و ایثار کا راستہ اختیار کیا، ہم نے اپنوں کا راستہ چنا۔
ہمیں اس کے بدلے میں جو ملا وہ انتہائی کربناک ہے، بے حد مایوس کن ہے، خوفناک ہے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم محبان وطن کا مقابلہ ملک کے غداروں سے کیا جا رہا ہے، ہمیں ان کے مقابل لا کھڑا کیا گیا جن کا کردار ملک کو توڑنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کا تھا، جنہوں نے اس ملک کے اثاثوں اور حساس مقامات کو تہس نہس کیا، ہمیں ان کے برابر گردانا گیا، جنہوں نے اس ملک کے فوجی جوانوں اور افسران سمیت ہزاروں بے گناہ لوگوں کا خون کیا تھا، ہمیں ان سے بھی کم درجے پر رکھا گیا، جن کے ماضی و حال کی کتاب پر صرف اور صرف پاکستان دشمنی کے تاریک ابواب لکھے تھے، ہمیں اس صف میں شمار کیا گیا، جو ارض پاک کی سلامتی اور استحکام کے خلاف برسر پیکار ہیں، یہ کسی اور کا کام نہیں، اس ملک کے مقتدر حلقوں کی بات ہے، وہ جو امن و سلامتی کے ذمہ دار ہیں، جنہیں دوست و دشمن کی پہچان ہونا چاہیئے، جنہیں غدار و وفادار کی شناخت ہونا چاہیئے، جنہیں اپنوں اور غیروں میں تمیز ہونا چاہیئے، یہ گلہ ان سے ہے، انہوں نے اس ملک سے وفا نہیں کی، انہوں نے اس پاک سرزمین کے دوستوں و دشمنوں کو پہچاننے میں ہمیشہ اشتباہ کیا ہے۔ اس ملک کے دفاع، سکیورٹی معاملات اور امن و امان کے ذمہ دار اداروں نے اس ملک و وطن کیساتھ جو سلوک کیا، اس کا نتیجہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔
کوئٹہ میں جو ہوا، وہ بہت کربناک، افسوسناک اور دردناک ہے، اس کے نقصان کا اندازہ وقت گذرنے کیساتھ ساتھ لگے گا، مگر کیا ہم اسی شہر میں اس سے بڑے دردناک مناظر سے نہیں گذرے، ہم اسی شہر میں اس سے بڑے حادثات سے نہیں گذرے، ہم نے اسی شہر میں لاشوں کو چیتھڑوں میں تبدیل ہوئے دفن نہیں کیا، کونسا ظلم ہے جو اس شہر میں ہمارے ساتھ نہیں ہوا، ہمارا تو جینا ہی دو بھر کیا گیا بلکہ تاحال ایسا ہی ہے۔ ہمیں ایک محلے سے دوسرے محلے جاتے ہوئے جانوں کے لالے پر جاتے ہیں، ہم نہ تو کھل کے کاروبار کرسکتے ہیں اور نہ ہی نوکری۔ ہمیں تو اپنے قاتلوں کو سزا دلوانے کیلئے ان تمام مارے جانے والے وکلا میں سے کوئی ایک بھی دستیاب نہیں تھا، ہمارے مقدمات کیلئے تو سرکاری وکیل کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ اس شہر میں اگر کوئی آزاد ہے تو وہ قاتلوں، دہشت گردوں کا گروہ ہے۔ کالعدم اور عالمی پابندیوں کا شکار گروہ ہی یہاں آزاد ہے، یہ تاثر یہاں عام پایا جاتا ہے کہ ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے والے مذہبی شدت پسندوں کا گروہ جو کالعدم بھی ہے نہ صرف آزاد ہے بلکہ انہیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔
یہ لوگ آزاد ہیں کہ ان کا اوڑھنا، بچھونا اور کاروبار ہی کرائے پر قتل و غارت گری کرنا ہے، یہ ایک طرف انڈیا کی ایجنٹی کرتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے سکیورٹی اداروں کیساتھ ہاتھ ملاتے ہیں۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں یہی لوگ آزاد ہیں اور جہاں چاہیں گھوم پھر سکتے ہیں، افغانستان سے سیستان و بلوچستان تک اور گوادر سے لیکر کراچی کے ساحلوں تک انہیں مکمل تحفظ حاصل ہے۔ یہ آزادانہ کارروائیاں کرتے ہیں، یہ جب اور جہاں چاہیں ایران جانے والے زائرین کو نشانہ بنا لیتے ہیں، ان کے ڈر اور خوف کا یہ عالم ہے کہ روزانہ بیسیوں بسیں جانے والے روٹ پر اب مہینہ بھر میں صرف دو بار بہت ہی محدود بسیں زائرین کی تفتان جاتی ہیں، جن کا برا حال کیا جاتا ہے، انہیں اذیتیں دی جاتیں ہیں اور ایسی ایسی مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں کہ لوگ زیارت سے تائب ہو جائیں۔ ایسے ایسے ایریاز جہاں سکیورٹی اداروں کی اجازت کے بغیر سانس لینا بھی دشوار سمجھا جاتا ہے، ان مذہبی شدت پسندوں کو کھل کھیلنے کی آزادی ہے، یہ سب کسی بھی عقلمند انسان کیلئے کافی کچھ سمجھا رہا ہے۔
اس کے بعد ایسے ماحول میں کوئی کیسے گمان کرسکتا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ بلوچستان میں امن کے گیت گائے جائیں گے؟ کے پی کے میں مثالی امن اور استحکام دیکھا جائے گا؟ کوئی کیسے تصور کرسکتا ہے کہ پینتیس سال پہلے جس پالیسی کو اختیار کیا گیا تھا، وہ دفن ہوگئی ہے، اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا نظریہ اور اسٹرٹیجک اثاثوں کی سوچ کب اور کہاں، کس نے ختم کی، یہ خواب دیکھا جا سکتا ہے اس کا اطلاق ممکن نہیں۔ اب تک کی تاریخ یہی چغلی کھا رہی ہے، سب کو نظر آ رہا ہے کہ ہمارے ہمسائے بھی اس پالیسی پہ نالاں ہیں، ہم خود بھی اس کا شکار ہیں اور حالات یہی بتاتے ہیں کہ آیندہ بھی ہوتے رہینگے۔ لہذا سول ہسپتالوں میں بم دھماکے ہوتے رہینگے، انسان چیتھڑوں میں تبدیل ہوتے رہینگے، مسجدیں نمازیوں کے خون سے رنگین ہوتی رہینگی، بے گناہ انسانوں کے گلے کاٹے جاتے رہینگے، اے پی ایس کے واقعات دہرائے جاتے رہینگے، خوف و دہشت کی فضا اہل پاکستان کا مقدر رہیگی، امن خواب بنا رہیگا، سلامتی و استحکام کیلئے کئی ضرب عضب مزید ہونگے، حکومتیں تبدیل ہوتی رہینگی، کیونکہ مقتدر حلقے اس ملک اور مملکت کو اپنی مرضی کی ڈگر پر رواں رکھیں گے اور ہم تو صرف یہی کہہ سکیں گے۔۔۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے، سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی ،گھر کے چراغ سے
اب آپ کی مرضی ہے کہ طالبان کو پیٹیں یا را کو ذمہ دار ٹھہرائیں، داعش کا نام چلائیں یا جند اللہ سے تسلیم کروائیں، احرار کا پمفلت پھینکیں یا لشکر جھنگوی کا حقیقت یہی ہے کہ ۔۔۔اس گھر کو۔۔۔!