04 February 2017 - 08:14
News ID: 426105
فونت
پاراچنار پاکستان:
۲۰۰۷ء سے لیکر آج تک ہمارے خلاف ۸ دھماکے کئے گئے، جن میں کوئی باہر کا آدمی نہیں بلکہ بیشتر یہیں کے مقامی افراد ہی ملوث رہے ہیں، کیونکہ خودکش حملہ آور کے لئے جب تک کوئی مقامی سہولت کار نہ ہو تو وہ کچھ نہیں کرسکتا، لیکن ان سے ہمارا کوئی گلہ شکوہ نہیں، کیونکہ وہ لوگ تو ہمیں اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں۔
پارچنار


 رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ روز سبزی منڈی دھماکے میں شہید ہونے والوں کی یاد میں مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں قرآن خوانی اور مجلس عزا کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں شہداء اور زخمیوں کے ورثاء کے علاوہ کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے دھماکے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے اس سانحے میں ملوث افراد کو جلد از جلد گرفتار کرنے کے علاوہ بے گناہ افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ اجتماع سے تحریک حسینی کے سابق صدر مولانا منیر حسین جعفری، تحریک کے صدر مولانا یوسف حسین اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسیں الحسینی نے خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت دہشتگردی سے سب سے زیادہ پاراچنار ہی متاثر ہوا ہے۔ 2007ء سے لیکر آج تک سرکاری سڑکوں پر مسافر گاڑیوں سے اتار اتار کر ہمارے بندوں کو نہایت بیدردی سے مارا گیا۔ ہمارے علاقوں پر وزیرستان، خیبر، مہمند اور سوات تک سے لشکروں پہ لشکر آکر حملہ آور ہوئے، جس میں ہمارے ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ ہمارے درجنوں دیہات تباہ ہوئے، جبکہ اس دوران ہونے والے دھماکے اس کے علاوہ ہیں۔

مقررین کا مزید کہنا تھا کہ 2007ء سے لیکر آج تک ہمارے خلاف 8 دھماکے کئے گئے۔ جن میں کوئی باہر کا آدمی نہیں بلکہ بیشتر یہیں کے مقامی افراد ہی ملوث رہے ہیں، کیونکہ خودکش حملہ آور کے لئے جب تک کوئی مقامی سہولت کار نہ ہو تو وہ کچھ نہیں کرسکتا، لیکن ان سے ہمارا کوئی گلہ شکوہ نہیں، کیونکہ وہ لوگ تو ہمیں اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں، جبکہ خود کو ملک کے ہر شہری کی جان کا محافظ سمجھنے والی ہماری اپنی حکومت کی یہ حالت ہے کہ جب بھی ہمارے خلاف کوئی حملہ ہوا ہے تو اس حوالے سے نہ فقط یہ کہ دہشتگردوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا گیا، بلکہ الٹا ہمارے متاثرہ افراد ہی کے خلاف کارروائی کی گئی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، 2012ء کو ہونے والے کرمی بازار دھماکے کے بعد ہمارے درجنوں افراد کو صرف احتجاج کرنے کے جرم میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور درجنوں کو اس جرم میں گرفتار کرکے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک جیل میں رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ہر دفعہ ہونے والے دھماکے میں ملوث افراد نے اپنے پیچھے نشانات چھوڑ کر خود کو آشکار کر دیا ہے۔ اس کا علم نہ صرف حکومت بلکہ ہر کس و ناکس کو ہوا ہے۔ 2007ء کا پہلا دھماکہ یہاں کے مقامی فرد غیور خان چمکنی نے کیا۔ اسکے گھر کے افراد محرر محمد افضل اور سور ملا سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی، کرمی بازار دھماکے کی ذمہ داری فضل سعید نے قبول کی۔ وہ کرم ہی کا باشندہ تھا، لیکن اسکے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ کشمیر چوک میں سرکاری گاڑی میں دھماکہ ہوا، اسکی آج تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔ پچھلے سال دسمبر 2015 کو کباڑ میں جو دھماکہ ہوا، اس سے دو دن قبل ہی بخت جمال کے بیٹے محمد جمال نے انکو برے نتائج کی دھمکی دی تھی۔ ان سب کے باوجود حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی، جبکہ ان کا جہاں بس چلتا ہے، پاکستان کے دشمن دہشتگردوں کی بجائے محب وطن پاکستانی اقوام، طوری بنگش کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔

21 جنوری کے حالیہ دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اس  سلسلے میں بھی حکومت نے اپنی روایت برقرار رکھی۔ ہمارے درجنوں افراد میں سے کچھ کو شامل تفتیش کرکے گرفتار کیا گیا اور کچھ کو اپنی مظلومیت کی فریاد کرنے پر گرفتار کر لیا گیا، جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ طوری نہیں بلکہ پاکستان بھر میں موجود کسی بھی شیعہ فرد نے اپنے واضح دشمنوں سپاہ صحابہ، طالبان اور لشکر جھنگوی کو بھی کبھی دھماکے کا نشانہ نہیں بنایا۔ چہ جائیکہ وہ اپنے ہی ہم مسلک افراد کے خلاف دھماکہ کریں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ شیعہ مذہب کے پیشوایان ائمہ معصومینؑ حتٰی کہ آج کے علماء اور مجتہدین، کلمہ گو مسلمان تو کیا، بے گناہ اور غیر حربی کفار کے خلاف بھی تلوار اٹھانے کو جائز نہیں سمجھتے۔

پچھلے سال کے کباڑ والے دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے تحریک کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں سابق پی اے امجد علی خان نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ میں نے پشاور میں تین گودام سیل کر دیئے ہیں اور یہ کہ ہم مجرم کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اسکے بعد مجرم کا پتہ چلا، نہ ہی گودام کے سیل کرنے کا آج تک کوئی پتہ چلا ہے، بلکہ اسکا یہاں سے تبادلہ ہونے پر سرے سے وہ فائل ہی بند ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جمہوری روایات خصوصاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے مطابق ہر ستم دیدہ و ستم رسیدہ شخص کو اپنی مظلومیت کی آواز بلند کرنے کا پورا پوا حق حاصل ہے، لیکن ایک طوری قوم ہے، جس سے یہ حق سلب کیا جا رہا ہے۔

مقررین کا مزید کہنا تھا کہ یہاں پر پاکستان کے مخالفین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ یہاں پر پاکستان دشمن عناصر خصوصاً طالبان اور داعش کی سرگرمیاں کھلم کھلا جاری ہیں، حالانکہ اس وقت بگن کے قریب سرے غوڑگے، مقبل اور سنٹرل کرم میں طالبان کی کارروائیاں کھلم کھلا جاری ہیں۔ انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ادھر ملک بھر کے عوام میں سے اس ملک کے قانون کا سب سے زیادہ احترام کرنے والے قبائل، اہلیان پاراچنار، کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی مظلومیت کی آواز اٹھانے کی اجازت نہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے اور کونسا قانون ہے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ بات ہم سب پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قانون پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی مظلومیت کی آواز ہر سطح پر بلند کرتے رہیں گے اور اس سلسلے میں کبھی خاموشی اختیار کریں گے، نہ ہی کسی قسم کا دباؤ قبول کریں گے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬