تحریر: ارشاد حسین ناصر
وہ ہم سب کیلئے نمونہ عمل تھے اور نمونہ عمل وہی ہوسکتا ہے، جس کا کردار و عمل اس کی زبان کی گواہی دے۔ وہ واقعاً کردار کے غازی تھے، ان کی متحرک، فعال تنظیمی و تحریکی زندگی کا جائزہ لیں تو ہر ایک جانتا ہے کہ ان کا اوڑھنا بچھونا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا سب کچھ اسلام ناب محمدی کی تبلیغ، ترویج اور عملی نفاذ کیلئے تھا۔ وہ بت شکن زمان حضرت امام خمینی کے سچے اور عملی فدائی تھے۔ وہ ایسے پاکستانی تھے، جنہوں نے اپنے عمل سے انقلاب اسلامی اور نظریہ ولایت فقیہ سے اپنے اخلاص کو دوسروں پر ثابت کیا۔ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی ذات سے ان کے عشق اور محبت کیلئے ان کی زندگی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ نوزائیدہ انقلاب اسلامی ایران پر جب امریکہ نے اپنے ایجنٹ صدام کے ذریعے حملہ کیا تو اسے امریکہ، نیٹو سمیت تمام عرب ممالک کی مدد حاصل تھی، بتایا جاتا ہے کہ ستاون ممالک صدام کے ساتھ ملکر ایران کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے، اس موقعہ پر امام خمینی کی الہٰی شخصیت کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اسلام محمدی سے عشق کرنے والوں کیلئے صبح امید کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر شہید ایران اور ایران سے باہر امام خمینی کے کسی بھی بڑے سے بڑے سچے اور کھرے عاشق اور فدائی کی طرح اگلی صف میں شمار ہوتے تھے۔ آٹھ سالہ جنگ تحمیلی کے دوران امام خمینی نے جہاد کی فرضیت کے بارے کوئی فتوٰی نہیں دیا، ہاں بس اتنا کہا کہ جو بھی استطاعت یا طاقت رکھتا ہے، وہ جبھہ یعنی محاذ پر جائے، پاکستان جو ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور انقلاب اسلامی ایران کو پسند کرنے والوں کی یہاں بھی بڑی تعداد موجود تھی، ان پاکستانیوں میں سے جس شخصیت نے امام خمینی کی اس خواہش کو سنا اور اسے پورا کرنے کی کوشش کی، وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید تھے۔ جو اپنے چند رفقاء کے ہمراہ جبھہ پر پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے محاذ جنگ پر بے انتہا خدمات سرانجام دیں، وہ ڈاکٹر تھے جن کی محاذ جنگ پر اشد ضرورت ہوتی ہے، ان کی خدمات کو اہل ایران ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ان کا زندگی نامہ بحساب عمر بہت مختصر ہے، مگر اس میں کارناموں کا شمار اب بائیس برس گذر جانے کے باوجود نہیں کیا جا سکا، 28 ستمبر 1952ء کو ولادت ہوئی، والد محترم بزرگ عالم دین اور گھر کا ماحول بھی دینی تھا، لہذا ابتدائے زندگی میں ہی دینی رجحان اور قومی افکار و سوچ کو پروان چڑھنے میں مدد ملی۔ قبلہ مولانا سید امیر حسین نقوی والد محترم اور علامہ سید صفدر حسین نجفی سے گہرا رشتہ تھا۔ 1971ء میں ایف ایس سی کا امتحان نمایاں نمبروں سے معروف تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا اور پاکستان کے معروف میڈیکل کالج کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں طب کی تعلیم کیلئے داخل ہوئے جہاں سے 1977ء میں ایم بی بی ایس کیا۔ اسی دوران آپ نے ملک گیر طلباء تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی بنیاد سے لیکر قیادت سنبھالی اور اس کی توسیع کئی ایک ڈویژنز تک ممکن بنائی۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے تا زندگی اپنا تعلق نبھاتے رہے۔ 7 مارچ 1995ء کی دم صبح انہیں لاہور کے معروف یتیم خانہ چوک میں اپنے محافظ تقی حیدر سمیت شہید کر دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کئی ایک علماء جن میں مولانا قبلہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل، جناب مفتی جعفر حسین قبلہ اور آغا سید علی الموسوی بھی شامل ہیں، سے بہت زیادہ مربوط اور قربت میں رہے۔ ان میں بھی آغا سید علی الموسوی کہ جنہوں نے ساری زندگی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ ایک مستقل رکن نظارت اور بانی رہنما کے طور پر گذار دی، ان سے بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ آغا سید علی الموسوی مرحوم بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو علماء کی طرح احترام دیتے تھے، وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو صحیح معنوں میں پہچانتے تھے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو حضرت امام خمینی کی ذات سے عشق تھا اور وہ انہی کے عشق میں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی ذات میں بھی کھو چکے تھے۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو اگر پاکستان میں کسی سے اپنا درد بیان کرنا ہوتا تھا تو ان کا اعتماد شہید ڈاکٹر پر ہی تھا۔ سانحہ مکہ (جب حج کے موقعہ پر1987ء میں امام خمینی کے حکم پر برات از مشرکین کے جلوس پر آل سعود کے غنڈوں نے حملہ کیا اور چار سو سے زائد حجاج، مہمانان خدا کو شہید کرکے سرزمین امن کو خاک و خون میں غلطاں کیا) ہوا تو آل سعود کی طرف سے اہل ایران پر حج کی پابندی لگا دی گئی۔ لبنان کے جوانوں پر بھی عمر کے حساب سے پابندیاں لگائی گئیں، امام خمینی کی خواہش تھی کہ حج پر حسب دستور دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کرام کو اصل حج یعنی براءت از مشرکین کا پیغام یاد کروایا جائے، وہ پیغام جس کو پہنچاتے ہوئے چار سو سے زیادہ ایرانی حجاج نے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور جائے امن پر جہاں ایک چیونٹی کو مارنا بھی منع کیا گیا ہے، کو بلا جواز، بلا جرم و خطا خاک و خون میں غلطاں کیا گیا تھا، اس پیغام کو پہنچانے کا انتظام و انصرام اور ذمہ داری فدائے امام خمینی ڈاکٹر محمد علی نقوی کے حصہ میں آئی۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اس پیغام امام کو احسن طریقہ سے حجاج کرام تک پہنچایا اور اس موقعہ پر اسیر ہوئے، انہیں سزائے موت کا حکم ہوا، مگر انہیں خدا نے مزید کام کا موقعہ دیا اور وہ رہا ہوگئے، انہوں نے رہا ہونے کے بعد بھرپور کام کیا۔
ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہل دل کو بڑے حوصلے میں چھوڑ آئے
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نمونہء عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق، کردار، عمل، میل جول، برتاؤ، اٹھنا بیٹھنا، فلاحی امور کا نیٹ ورک، خدمت خلق سے سرشار معمولات، تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک، تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیاء، نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون، ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی، دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت، ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات، الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فاؤنڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا، وہ مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتے تھے، قوم کی بچیوں کی شادی اخراجات سے لیکر اسیران ملت و دہشت گردی سے متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ بھی ان کی کاوشوں سے جاری رہتا تھا اور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی جاتی تھی، تاکہ وہ اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو جائیں۔ ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفٰے اسکول کے نام سے قائم کیا، جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں۔ انہوں نے مختلف سرکاری اسپتالوں میں خدمات سرانجام دیں، وقت شہادت بھی وہ معروف شیخ زہد اسپتال لاہور میں بطور رجسٹرار خدمات سرانجام دے رہے تھے اور صبح اپنے دفتر جانے کیلئے ہی نکلے تھے کہ نشانہ بن گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے زینبیہ ہسپتال میں بھی بہت معمولی مشاہرہ پر خدمات سرانجام دیں۔ بعد ازاں اسی زینبیہ کمپیکس کے سامنے الزہرا کلینک کے نام سے اپنا فری اسپتال بھی قائم کیا، جہاں بہت ہی غریب اور مستحق لوگ علاج کیلئے آتے تھے، یہ اسپتال آج بھی قائم ہے، جسے ایک معرف سرجن ڈاکٹر شہید کے شہادت سے لیکر آج تک دیکھ رہے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں یہ اسپتال اس علاقے کے لوگوں کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ایک طالبعلم رہنما سے لیکر پروفیشنل سرجن و ڈاکٹر تک اور ایک فلاحی و رفاحی کردار سے لیکر ملت کے زخموں کی مسیحائی تک ہر جگہ اپنی قابلیت و اہلیت کو ثابت کرتے دیکھے گئے۔ انہیں ایک استعمار دشمن کے طور پر سڑکوں و شاہراہوں پہ احتجاج و مظاہرے کرتے بھی دیکھا گیا اور بارگاہ خداوندی میں شب کی تاریکی میں دعا و مناجات اور قول و قرار، توبہ و استغفار کرتے بھی دیکھا گیا۔ وہ ایک مرد مجاہد کے طور پر بھی نظر آئے اور ایک قومی کارکن اور رہنما کے روپ میں بھی انہیں دیکھا گیا۔ وہ جس شعبہ اور جس ذمہ داری پر بھی نظر آتے، کامل اور پرفیکٹ دیکھے جاتے۔ ان کی تقریر بہت لمبی نہیں ہوتی تھی، ہاں مختصر ہونے کے ساتھ بہت ہی پر اثر ضرور ہوتی تھی۔ وہ جس کے ساتھ بھی ملتے اسے اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ انہوں نے محبتیں بانٹیں، دکھ بانٹے، درد بانٹے اور پوری زندگی اور شہادت کے بعد بھی محبتیں سمیٹیں، عقیدتیں پائیں، ایک شہید کو جس طرح زندہ نظر آنا چاہیئے، آج وہ محسوس کئے جاتے ہیں۔ ان کی شہادت کو بائیس برس ہو رہے ہیں، مگر دوستوں کی محبت کو دیکھ ایسا لگتا ہے۔۔۔
فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید منکسرمزاج، انصاف پسند، دیانت دار، شجر سایہ دار، مقرر اثر پذیر، مفکر عمل گیر، اخلاق حسنہ کی عملی تصویر تھے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہمدرد، غمگسار، معاون، مددگار، محسن، متقی پرہیز گار اور بہت ہی ملنسار تھے۔
وہ کربلا کے حقیقی پیرو تھے۔ انہیں صادق و سچا عاشق کربلا کہا جا سکتا ہے۔ جو اے کاش ہم کربلا میں ہوتے نہیں بلکہ اس کا عمل و کردار بتائے کہ جیسے ہم کربلا میں ہیں اور اپنا کردار ادا کرنے کا موقعہ ہے، وہ راہ حسینؑ کا مسافر تھا، جس نے خمینی کی کربلا میں حسینی دعوت پر لبیک کہا اور ایک لمحہ کیلئے بھی اپنی جان کی فکر نہیں کی اور نہ ہی کسی اور رکاوٹ اور بہانے کو سد راہ بنایا۔ کاروان عشاقان امام مہدی، سربازان بت شکن خمینی، پیروان ولایت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی شکل میں ان کا لگایا ہوا پودا اب تناور درخت کی شکل میں ملت کو چھاؤں فراہم کر رہا ہے۔ مظلوموں و ستم رسیدہ عوام کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اس پلیٹ فارم سے ڈاکٹر صاحب کی زندگی، مشن اور اہداف کو حاصل کرنے کی کاوشیں قوم و ملت کے سامنے ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید زندگی میں ایک ایسے محور کی حیثیت رکھتے تھے، جس کے گرد ملک بھر کے تنظیمی، انقلابی، بیدار نوجوان کھنچے چلے آتے تھے۔ ان کی مقناطیسی شخصیت کی کشش سے ہر کوئی ان سے مربوط رہتا تھا اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا یہ کمال تھا کہ وہ مردم شناس ہونے کے ناتے ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے تھے، کسی کو بیکار نہ رہنے دیتے تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ہم اس مقناطیسیت سے محروم ہوگئے، وقت آج بھی ہمیں پکار رہا ہے۔ آج بھی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے، آج بھی سعادت و خوشبختی کا اور شہداء کا راستہ منتظر ہے کہ کوئی محمد علی نقوی بن کر آئے اور ملت کے دردوں کی دوا کرے۔ ان کی برسی کا پروگرام منعقد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ان اہداف کو حاصل کرنے کی جدوجہد سے پیہم مربوط رہا جائے، جو شہید نے مقرر فرمائے تھے۔ شہید کی زندگی، خدمات، کمالات، خصوصیات اور اثرات کا احاطہ کرنا نا ممکن ہے۔۔۔۔ بس یہ کہیں گے کہ
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام، تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں
منبع:اسلام ٹائمز