تحریر: طاہر یاسین طاہر
ملکوں کے مفادات ہوتے ہیں۔ بادشاہتیں ہوں یا جمہوریتیں، سب کا مقصد اپنے مفادات کا دفاع ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم جانتے ہیں کہ دنیا میں ملکوں کے الائنس بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ کچھ مفادات مگر جزوی ہوتے ہیں اور کچھ گہرے اور طویل المقاصد۔ سعودی عرب کو یکا یک ایک بڑا اتحاد کھڑا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ خطے کے بدلتے عسکری و سیاسی حالات اس کی ایک وجہ ہیں اور یہ بنیادی وجہ ہے۔ عرب بہار جو کبھی تیونس سے اٹھی تھی، اس کا ہدف عرب عوام سے چھین لیا گیا ہے۔ البتہ اس عرب بہار نے شعور کے کئی دیے جلا دیئے ہیں، جو زندگی کی تاریک راہوں میں ہمت اور عزم کا راستہ دکھاتے چلے جا رہے ہیں۔ یمن کے نہتے عوام کے پاس یہی وہ دیئے ہیں، جو سامراجی طاقتوں کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود بجھ نہیں رہے ہیں۔ سعودی عرب کو یمن سے کیا خطرہ ہے؟ حوثیوں سے خانہ کعبہ کو، تو میری معلومات تک کوئی خطرہ نہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ، جو وحدت و اتحاد کی عملی علامت بھی ہے، اس کے امام صاحب نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور وحدت کے مرکز کی نمائندگی کرنے کے بجائے آلِ سعود کی نمائندگی کرتے ہوئے، یہاں کے سچے پکے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ آپ کی قربانیوں کے بغیر کعبہ کو خطرہ ہے۔ حوثی البتہ اس کی کئی مرتبہ تردید کر چکے ہیں۔ وہ آج بھی اسی کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ پھر مسئلہ کہاں ہے؟ مفادات میں۔
سادہ سوالات کے جوابات گاہے سادہ نہیں ہوتے۔ شام میں سعودی عرب کی تمام تر سرمایہ کاری غرقاب ہوچکی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اسد حکومت کو گرانے اور اس کے خلاف داعش و القاعدہ اور النصرہ کو متحرک کرنے میں سعودی عرب کا کلیدی کردار ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اسد حکومت جائز ہے یا آمرانہ۔ ہمیں البتہ اس سے ضرور سروکار ہے کہ داعش کی پشت پہ کون کون ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ جہاد النکاح کا فتویٰ داعش کے حق میں کہاں سے اترا تھا۔ آج داعش، سعودی عرب اور ترکی دونوں کی مخالف ہوچکی ہے۔ مگر تجزیہ کار جانتے ہیں کہ سعودی عرب، قطر اور ترکی داعش کی تخلیق کے بنیادی اجزا ہیں۔ اس تخلیق میں قوت امریکہ و یورپ نے پیدا کی۔ سامراج ایک خاص رویے کا نام ہے۔ سامراج کا خاص ہتھیار مذہب فروشی ہے اور بے شک مگر بدقسمتی سے آلِ ِ سعود اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے لئے مذہب کو خوب بیچتے ہیں۔ عالم اسلام کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس کاروبار کی فروخت عروج پہ ہے اور اس کے خریدار گرمئی بازار بڑھائے رکھتے ہیں۔ یمن اور سعودی عرب کا تنازعہ عربوں کا علاقائی و سیاسی معرکہ ہے۔ اسے جس طرح مذہب اور مسلک کے ساتھ جوڑ کر اس کی مارکیٹنگ ہوئی، یہ افسوس ناک ہے۔ اسی طرح شام میں اسرائیل مخالف حکومت اور فلسطینی کاز کی تنظیموں کی پناہ گاہوں کو کمزور اور ختم کرنے کے لئے داعش کے مذہبی و ریاستی بیانیے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یمنی ڈٹے ہوئے ہیں اور وہاں کے سارے قبائل یکجان ہو کر، صرف یمنی بن کر سعودی اتحاد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وہ وطن کی جنگ لڑ رہے ہیں، بیرونی جارحیت کے خلاف۔
دسمبر 2015ء میں سعودی عرب نے ایک 34 ملکی اسلامی فوجی اتحاد کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اس اتحاد میں شامل مسلم ممالک کی تعداد 39 ہوچکی ہے۔ اس حوالے سے کام بڑی سرعت سے جاری تھا۔ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ ابھی تک اس اتحاد میں دیگر اسلامی ممالک کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ جب اس عسکری اتحاد کا نام اسلامی عسکری اتحاد یا اسلامی فوجی اتحاد رکھا گیا ہے تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتحاد ضرور غیر اسلامی ممالک اور افواج سے لڑنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ فوراً خیال آتا ہے کہ یہ اتحاد عملی شکل ترتیب پاتے ہی اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے گا۔ ایسا مگر کوئی امکان نہیں، اس اسلامی فوج کے کفیل ایسا بالکل نہیں چاہیں گے، ان کا ہدف نہ اسرائیل ہے، نہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد، نہ روہنگیا کے کلمہ گو انسانوں کی یاوری۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے اسلامی فوجی اتحاد کا نام کیوں دیا گیا؟ اتحاد کے کفیل ملک کا خیال ہے کہ وہ اس اتحاد کے ذریعے داعش جیسے فتنے کو ختم کریں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اس اتحاد کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پا لیا جائے گا، مگر کیسے۔؟ داعش کے خلاف شام اور عراق فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں، بلکہ دونوں ممالک باقاعدہ داعشی مظالم کا شکار بھی ہیں۔ کیا ان کو اس اتحاد میں شامل کیا گیا ہے؟ یا انہیں دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس اتحاد میں شمولیت اختیار کریں۔ ایران خطے کا ایک اور اہم ملک ہے، جو داعش کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا بھی ہے اور عملًا شام میں داعش کے خلاف لڑ بھی رہا ہے۔ کیا اس ملک کو بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے؟
ایسا نہ ہوا اور نہ اس کا فی الحال کوئی امکان ہے۔ کیا افغانستان کو اس میں شامل کیا گیا ہے؟ دفاعی تجزیہ کار اس اتحاد کو ایک فرقہ وارانہ اور آلِ سعود کی بادشاہت کا ضامن اتحاد تصور کرتے ہیں۔ یہ ایسا مسلم ممالک کا عسکری اتحاد ہے، جسے امریکہ و اسرائیل کی بیک وقت حمایت حاصل ہے۔ ہمیں تسلیم ہے اور فخر بھی کہ پاک فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے اپنے عہد میں خوب نام کمایا۔ اتنے ممالک کی فوج کی کمان اگرچہ اعزاز اور وقار کی بات ہے، لیکن اگر اس اتحادی فوج کا ہدف واقعی داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ہو۔ ایسا فی الواقع نظر نہیں آرہا، بلکہ اس اتحاد کا مقصد جو نظر آتا ہے، وہ کمزور ہوتی آلِ سعود کی حکومت کو مقدس مقامات کی حفاظت کے نام پر مضبوط کرنے کی متشدد کوشش کی جائے گی، جس سے خطے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بڑھنے کے بجائے نفرتیں اور غلط فہمیاں پروان چڑھیں گی۔ جب ایسا ہوگا تو لازمی طور پر بات اس فوج کے کمانڈر پر بھی آئے گی۔ یہ بات تمام پاکستانیوں کے لئے دکھ اور تکلیف کا باعث ہوگی۔ ہماری پارلیمان اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے ضرور سوچنا چاہیے، بلکہ خود سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی۔/۹۸۸/ ن۹۴۰