20 May 2017 - 11:51
News ID: 428148
فونت
جموں و کشمیر کُل جماعتی حریت کانفرنس (م) کے زیر اہتمام ہفتہ شہادت کے سلسلے میں ایک باوقار سیمینار بعنوان ’’تنازعہ کشمیر کا حل۔۔۔ امن کا نقیب استحکام کا ضامن‘‘ سرینگر میں منعقد ہوا۔
سیمینار تنازعہ کشمیر کا حل۔۔۔ امن کا نقیب استحکام کا ضامن

رپورٹ: جے اے رضوی

جموں و کشمیر کُل جماعتی حریت کانفرنس (م) کے زیر اہتمام ہفتہ شہادت کے سلسلے میں ایک باوقار سیمینار بعنوان ’’تنازعہ کشمیر کا حل۔۔۔ امن کا نقیب استحکام کا ضامن‘‘ سرینگر میں منعقد ہوا۔

سیمینار کی صدارت کے فرائض سینیئر حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ نے انجام دئے، جبکہ حریت کانفرنس (م) کے چیئرمین میرواعظ ڈاکٹر عمر فاروق کو ریاستی انتظامیہ نے ایک بار پھر اپنی رہائشگاہ میں نظربند کر کے نہ صرف ان کی جملہ سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی بلکہ مذکورہ سیمینار میں بھی شرکت سے روک دیا گیا، جبکہ اس موقعے پر جن مزاحمتی قائدین نے موضوع کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک، مولانا مسرور عباس انصاری، معراج الدین کلوال (نمائندہ سید علی گیلانی )، محمد شفیع خان میر غلام حسن، غلام نبی نجار، اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر انعام الحق اور نوجوان مزاحمتی رہنما محمد توصیف شامل ہیں۔ اس موقعے پر جو دیگر حریت رہنما موجود تھے ان میں محمد مصدق عادل، غلام نبی زکی، خلیل محمد خلیل، مشتاق احمد صوفی عبدالرشید انتو، جعفر کشمیری اور فاطمہ بانو شامل ہیں۔ سیمینار کی نظامت کے فرائض عبدالمنان بخاری نے انجام دئے۔ اپنی نظربندی سے قبل ایک بیان میں کل جماعتی حریت کانفرنس (م) کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق کی المناک شہادت کے ستائیس سال مکمل ہونے پر شہید رہنما، شہدائے حول اور جملہ شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کشمیری عوام کو اُن ذمہ داریوں کا محاسبہ کرنے کی تاکید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ شہادت منانے کا مقصد صرف ان شہیدوں کو یاد کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اُس مقصد اور مشن کو آگے لے جانا ہے جس کے لئے ان شہیدوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر عبدالغنی بٹ نے حریت کانفرنس (م) کے چیئرمین میرواعظ کی بلاجواز نظربندی اور سیمینار میں ان کی شرکت پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’گولی کے بجائے بولی‘‘ کی بات کرنے والے لوگ اب طاقت کے بل پر بولی پر بھی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مہمان مقررین اور جملہ حاضرین کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کُل جماعتی حریت کانفرنس نہ صرف اتحاد و اتفاق کی داعی رہی ہے بلکہ حریت کانفرنس ہر اس عمل کی حمایت کرے گی جس کا مقصد متحدہ طور رواں جدوجہد کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے متفقہ طور ایک لائحہ عمل ترتیب دینے سے ہو۔ شہیدِ ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق، شہید حریت خواجہ عبدالغنی لون، شہدائے حول اور جملہ شہدائے کشمیر کے تئیں نذانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے پروفیسر عبدالغنی بٹ نے کہا کہ ان عظیم قائدین اور شہداء نے ایک بلند نصب العین کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت یہاں کے عوام کی جائز جدوجہد کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے اور نہ مستقبل میں یہاں کے عوام کی اجتماعی جدوجہد کو دبا سکے گا۔

پروفیسر عبدالغنی بٹ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان جیسی دو جوہری مملکتیں کسی خوفناک جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور مسئلہ کشمیر نے اس خطے کے امن کے حوالے سے جو خوفناک شکل اختیار کی ہے، اس کی بناء پر پوری عالمی برادری کی توجہ اس مسئلے کے حل کی جانب مبذول ہو چکی ہے۔ اپنے خطاب میں محمد یاسین ملک نے شہید ملت، شہید حریت اور شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک مزاحمت کی سطح پر آج کشمیری قوم کو جن مشکل حالات کا سامنا ہے اور ہماری مبنی برحق جدوجہد کو حکومتی سطح پر ظلم و تشدد کے ہتھکنڈوں سے دبانے کے حربے آزمائے جا رہے ہیں، ان کا صرف اتحاد فکر و عمل اور یکسوئی کے ساتھ ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی ہر قوم اور ملک کسی نہ کسی وقت غلامی کا شکار رہے ہیں، تاہم کسی بھی تحریک آزادی کو ظلم و جبر اور ملٹری مائٹ کی بنیاد پر دبایا نہیں جا سکا ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد یاسین ملک نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ہر بات پر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرنا اور یہاں کے عوام کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کے حربے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تحریک آزادی کو آگے بڑھانے کے لئے قوم اور قیادت اجتماعی مزاحمت کا راستہ اختیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کی مزاحمتی قیادت اور عوام کے لئے سیاسی مکانیت کو مسدود کیا جا رہا ہے، حکمران طبقہ دھونس دباؤ کے بل پر ہماری آواز کو دبانہ چاہتے ہیں۔ یاسین ملک نے کہا کہ بھارت اور اس کے ریاستی حواری متحدہ مزاحمتی قیادت کے اتحاد سے خوفزدہ ہو چکے ہیں، یہ حریت پسند عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کے ساتھ مزاحمتی قیادت کے ہر پروگرام پر من و عن عمل کریں۔ انہوں نے مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے اکیس مئی کے مزار شہداء عیدگاہ کے جلسہ عام اور اس روز ہمہ گیر احتجاجی ہڑتال کو کامیاب بنانے کی اپیل بھی دہرائی۔ معراج الدین کلوال نے اپنی تقریر میں کہا کہ قیادت اور قوم حصول حق خودارادیت کے لئے متحد ہوچکی ہے اور یہ من حیث القوم ہم سب کے لئے نقطہ اشتراک ہے۔

معراج الدین کلوال نے کہا کہ طاقت کے بل پر اس قوم کو مغلوب بنا دیا گیا ہے تاہم یہ قوم طاقت کے سامنے نہ مغلوب ہوئی ہے اور نہ ہم بھارت سے آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں، بلکہ اس جائز حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کو عالمی برادری نے تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک حق و انصاف پر مبنی ہے اور کشمیری قوم بھارت کے دشمن نہیں بلکہ ہم ان کی ترقی اور امن کے خواہاں ہیں تاہم اپنے حق و انصاف پر مبنی موقف سے دستبرداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اگر کسی نہ کسی شکل میں خون ریزی ہو رہی ہے تو اس کا ذمہ دار بھارت کی سوچ اور اس کی وہ پالیسی ہے جو اس نے کشمیر کے حوالے سے اختیار کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا آسان حل یہی ہے کہ یہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کے تعین کرنے کا حق دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ قیادت اسی مشن کی تکمیل کے لئے برسر جدوجہد ہے جو شہید ملت، شہید حریت اور جملہ شہدائے کشمیر نے ادھورا چھوڑا ہے۔

سیمینار بعنوان ’’تنازعہ کشمیر کا حل۔۔۔ امن کا نقیب استحکام کا ضامن‘‘ سے خطاب میں مولانا مسرور عباس انصاری نے شہید ملت، شہید حریت اور جملہ شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں تب تک خون ریزی ہوتی رہے گی جب تک مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ بھارت نوشت دیوار پڑھ لے اور طاقت کی بولی بولنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں بامعنی مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ جنوب ایشیائی خطے کا امن و استحکام مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے اور جب تک اس مسئلے کے حل کے حوالے سے سنجیدگی سے عبارت اقدامات نہیں اٹھائے جاتے بدامنی اور عدم استحکام کی صورتحال برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو لے کر بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی خونریز جنگیں ہو چکی ہیں اور یہ مسئلہ ایک نیوکلیئر فلیش پائنٹ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس خطے کے امن کو سب سے بڑا خطرہ جو لاحق ہے وہ مسئلہ کشمیر ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬