رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے آج ظھر سے پہلے مدرسہ مبارکہ حجتیہ میں اپنی تفسیر قران کریم کی نشست میں ماہ مبارک رمضان کی فضلیتوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا: ہم خداوند متعال کا اس بات پر شکر ادا کرتے ہیں اس نے ہمیں بار دیگر ماہ مبارک رمضان کی برکتوں سے استفادہ کا موقع دیا ۔
انہوں نے مزید دعا کی کہ خداوند متعال سبھی کو اس ماہ میں عبادت اور روزہ داری کی توفیق عنایت کرے تاکہ طھارت نفس کی امتحان گاہ سے کامیاب آئیں ۔
اس مرجع تقلید نے واضح طور سے کہا: خداوند متعال نے قران کریم کی آیت میں روزے کے واجب ہونے کو بیان کیا ہے ، آیت میں آیا ہے کہ «یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم » یہ حکم فقط قران کریم سے مخصوص ہے ، دیگر آسمانی کتابوں میں اس حکم کا تذکرہ نہیں ہے ۔
قران کریم کے اس مفسر نے مزید کہا: «کُتِبَ» کا لفظ جو «کتب علیکم الصیام» میں استعمال ہوا ہے عرب لغت میں پتھر کی لیکر کے معنی میں ہے ، قدیم زمانے میں جب کسی بات کو ابدی بتایا جاتا تھا تو اسے پتھر کی لکیر کے معنی میں استعمال کیا جاتا تھا ، قران میں اس مقام پر « کُتِبَ » کا لفظ ابدی اور پائداری کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی مزید کہا: خداوند متعال نے بعد کی آیتوں میں روزہ رکھنا آسان کردیا ہے ، اور اس نے بتایا کہ فقط تم پر ہی روزہ واجب نہیں ہوا بلکہ دیگر ملتیں اور قومیں بھی اسے رکھتی آئیں ہیں اور ان پر بھی روزہ واجب رہا ہے ۔
انہوں نے تاکید کی: قران کریم میں خداوند متعال نے روزه داری کا مقصد تقوائے الھی بتایا ہے اور ارشاد فرمایا کہ روزہ داری کا مقصد فقط بھوک و پیاس کو برداشت کرنا نہیں ہے بلکہ روزہ داری ، تقوائے الھی کی گذرگاہ اور منزل ہے ۔
اس مرجع تقلید نے مزید کہا: تقوا کو لفظ وقایہ سے بنایا گیا ہے اور محکم زرہ کے معنی میں ہے ، ایسی زرہ جس پر شمشیر اثر نہ کرے ، تقوائے الھی انسان کے اندر وہ توانائی پیدا کردیتا ہے جو زرہ کا حکم رکھتی ہے ، یہ زرہ انسانوں کے دلوں میں گناہوں کو داخل ہونے سے روکتی ہے ۔
انہوں نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں سورہ ملک کی تفسیر کو کرتے ہوئے کہا: اس سورہ کے تین نام ہیں ملک ، تبارک الذی بیده الملک اور المنجی ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے مزید کہا: اس سورہ کا مقصد ربوبی توحید کو بیان کرنا ہے ، یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ توحید کی دو قسمیں ، ایک توحید خالقیت کہ جو خلقت سے متعلق ہے ، دوسرے توحید ربوبی کہ جو پرورش اور مدیریت سے متعلق ہے ۔
عصر حاضر میں قران کریم کے مفسر نے مزید کہا: وہابیوں کا ہمارا اسی موضوع پر اختلاف ہے ، وہ کہتے ہیں کہ عرب توحید ربوبی میں موحد تھے فقط توحید عبادی میں مشرک تھے ، مگر وہابیت کی یہ خطا ہے کہ کیوں کہ وہ توحید ربوبی اور توحید عبادی دنوں ہی میں مشرک تھے ۔
انہوں نے آخر میں سوره ملک کی پہلی آیت کی تفسیر کی جانب اشارہ کیا اور کہا : خداوند متعال کی پرورش اور مدیریت اس کی خالقیت کا نتیجہ ہے ، خداوند متعال اپنے ملک پر مسلط ہے اور اس آیت میں لفظ «یَد» کا استعمال خدا کے اختیار کو بیان کرتا ہے ، مگر وہابی ، شیعہ مذھب کے برخلاف اس بات کے قائل ہیں کہ خدا کے بھی انسانوں کی طرح ہاتھ ہیں ، مگر سوال یہ ہے وہ ہاتھ کہاں اور کس جگہ ہیں ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۶۶۹