تحریر: ثاقب اکبر
ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام 18 جولائی 2017ء کو اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد ہوا، جس کا عنوان ’’مودی کا دورہ اسرئیل اور مسئلہ کشمیر‘‘ تھا۔ اس سیمینار کا مقصد بھارت اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات کے جنوبی ایشیا خاص طور پر پاکستان اور کشمیر پر پڑتے ہوئے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔ اس سیمینار میں مختلف دینی مذہبی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ متعدد دانشوروں نے بھی شرکت کی اور موضوع کی مناسبت سے اظہار خیال کیا۔ ان میں ممتاز کشمیری دانشور جناب شیخ تجمل الاسلام بھی شامل تھے۔ وہ اس وقت کشمیر میڈیا سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کشمیر میں بھارت کے ہتھکنڈوں کے پیچھے اسرائیلی اور صہیونی دماغ کو حقائق کے ساتھ آشکار کیا اور بتایا کہ کیسے کشمیر کی تحریک حریت کو دبانے اور کشمیریوں کو آزادی کی آرزو کو ناکام کرنے کے لئے مظالم کے انوکھے طریقے اسرائیل ہی بھارتیوں کو سکھا رہا ہے، کیونکہ خود اس نے فلسطینیوں پر یہ سارے طریقے آزمائے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مختلف ہتھیار جو بھارت کشمیر میں استعمال کر رہا ہے، وہ اسے اسرائیل ہی نے مہیا کئے ہیں یا ان کے پیچھے اسرائیلی ٹیکنالوجی کارفرما ہے۔ انہوں نے بھارت اور اسرائیل کے تاریخی روابط کی بھی نشاندہی کی اور یہ واضح کیا کہ بھارت مہاتما گاندھی کی روش سے ہٹ کر 1949ء ہی سے اسرائیل کے ساتھ روابط کی بنیاد رکھ چکا ہے، جسے حالات کو دیکھ کر آہستہ آہستہ آشکار کیا گیا ہے۔ آیئے اس سلسلے میں ہم ان کے بتائے ہوئے چند چشم کشا حقائق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
نریندر مودی کا حالیہ دورہ اسرائیل
نریندر مودی کا یہ دورہ تین روزہ تھا، جو 4 جولائی سے شروع ہوا اور 6 جولائی تک جاری رہا۔ اس دورے کے لئے بنیادی امور 26 جون کو مودی کے دورہ امریکہ اور اس سے پہلے صدر امریکہ کے دورہ اسرائیل کے دوران انجام دیئے گئے۔ مودی کے حالیہ دورۂ اسرائیل کے دوران متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے، جن میں ٹیکنالوجی، پانی، زراعت اور خلائی امور میں تعاون شامل ہے۔ اس موقع پر دہلی اور ممبئی سے تل ابیب کے لئے فلائٹس شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
بھارت اور اسرائیل کے روابط کی تاریخ پر ایک نظر
یہ تعلقات مودی کے حالیہ دورے ہی سے شروع نہیں ہوتے بلکہ اس کی ایک پرانی تاریخ ہے، جو اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اس وقت بھارت اسرائیلی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ دفاعی ساز و سامان میں امریکہ کے بعد اسرائیل بھارت کا دوسرا بڑا سپلائر ہے۔ 1947ء میں اگرچہ بھارت نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا، جو بعد میں اس کی منافقت کے طور پر سامنے آیا، کیونکہ 1949ء میں بھارت نے پھر خود اپنے ہی فیصلے کے خلاف اسرائیل کی حمایت میں ووٹ دیا۔ ہندو مہاسبھا، راشٹریہ سیوک سنگ شروع ہی سے اسرائیل کی حامی رہی ہیں، جبکہ آخر کار ستمبر 1950ء میں بھارت نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر لیا۔ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے کہ بھارت کے زیر زمیں تعلقات تو 1949ء سے اسرائیل کے ساتھ قائم تھے، تاہم 1992ء میں سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ بھارت اسرائیل روابط کی تاریخ کے مطابق دونوں کے مابین فوجی تعلقات 1971ء سے قائم ہیں۔ البتہ حساس اداروں کا اشتراک 1953ء سے چلا آرہا ہے۔ سفارتی تعلقات کے اعلان کے بعد ممبئی میں اسرائیلی کونسل خانہ کھولا گیا۔ جب 1968ء میں بھارت میں ’’را‘‘ کو قائم کیا گیا تو اس وقت کے ’’را‘‘ (RAW)کے چیف رامیشورناتھ کاؤ کو اندرا گاندھی نے ہدایت دی کہ موساد سے تعلقات قائم کریں۔
پاکستان کے خلاف بھارت اور اسرائیل کا اتحاد
میجر جنرل جے ایف آر جیکب 1971ء میں بھارتی فوج میں سرونگ آفیسر تھے، وہ یہودی تھے۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1971ء میں بھارت اور مکتی باہنی نے اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا تھا، ورنہ وہ مشرقی پاکستان میں ناکام ہو جاتے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں جو خود جوہری اسلحہ بنانے کے لئے کوشاں رہے ہیں اور اب ایٹمی طاقتیں ہیں، پاکستان کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لئے ہمیشہ یک زبان رہے ہیں۔ دونوں نے پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم قرار دیا، جبکہ دنیا میں کبھی کسی نے امریکی بم کو مسیحی بم، اسرائیلی بم کو یہودی بم اور بھارتی بم کو ہندو بم نہیں کہا۔ مزید برآں اسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عراقی نیو کلیئر ریکٹر کو ایک فضائی حملہ کرکے تباہ کر دیا تھا۔ در پردہ یہ امریکہ کے اس ارادے کا حصہ تھا کہ کسی مسلمان ریاست کو ایٹمی طاقت نہیں بننے دیا جائے گا، اس سلسلے میں پاکستان پر جو امریکی دباؤ رہا اور آج تک ہے وہ سب پر آشکار ہے۔
کشمیریوں پر ظلم اور اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ
اسرائیل کی کشمیر کے خلاف سازشوں کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔1987ء میں فلسطینیوں کے خلاف پوائنٹ 4 کی پیلٹ گن استعمال کی گئی، جو زیادہ خطرناک تھی۔ اس لئے اس وقت اسرائیل نے اسے اپنے اسلحہ خانہ میں محفوظ کر لیا اور پھر اسلحہ خانے میں رکھی گئی پوائنٹ 9 کی پیلٹ گن طلب کی گئی، جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کی، ایسا اسرائیل نے عالمی سطح پر زیادہ بدنامی کے خوف سے کیا، لیکن پوائنٹ 4 کی وہی زیادہ خطرناک پیلٹ گن بھارتی وزارت دفاع نے اسرائیل سے خریدی، جو کشمیر میں استعمال کی گئی اور حال ہی میں جس کی وحشت ناکیاں مقبوضہ کشمیر میں سامنے آئی ہیں اور جس کی وجہ سے سینکڑوں کشمیریوں کی آنکھیں ضائع ہوگئی ہیں اور ان کے چہرے بگڑ گئے ہیں۔ اسرائیل سے لائسنس لے کر یہ گن بھارت نے اب خود تیار کرنا شروع کر دی ہے۔ ربڑ سے لپٹی سٹیل کی گولیاں اور بے ہوش کرنے والی گیس بھی کشمیر میں استعمال ہو رہی ہے، جو پہلے فلسطین میں استعمال کی گئی تھی۔
اسرائیل کے بھارت کو مشورے
اسرائیل نے بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ کشمیریوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے عسکری اور غیر عسکری میں فرق نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ خود اسرائیلی فوجی بھی کنکر مارنے والے فلسطینی بچوں پر گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتے۔ اسرائیل کے مشورے کے بعد اب بھارت کشمیریوں کے خلاف یہی طریقہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ آنجہانی شمعون پیریز نے 18 مئی 1993ء کو بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اپنے اس دورے کے موقع پر اس نے کھلے عام بھارتی نیتاؤں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کریں، مسلمانوں کی آبادی کو کم کریں اور غیر مسلموں کی آبادی میں اضافہ کریں۔ اس کے بعد سے بھارت مسلسل کشمیر میں اسی اصول پر عمل کر رہا ہے۔ مختلف علاقوں میں ہندوؤں کی آباد کاری میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں نئی سیٹلمنٹس (Settlements) قائم کی جا رہی ہیں، یہ وہی حربہ ہے جو اسرائیل فلسطینی علاقوں میں ایک عرصے سے آزما رہا ہے۔
اطلاعات کا تبادلہ اور بھارت میں اسرائیلی ایجنٹ
بھارت اور اسرائیل کے درمیان پہلے سے جوائنٹ ملٹری ٹریننگ کا اہتمام موجود ہے، اس ٹریننگ سے کشمیر میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی سیاح کی صورت میں کشمیر آتے ہیں۔ 1991ء میں چند اسرائیلی حریت پسندوں کے ہاتھوں پکڑے بھی گئے تھے۔ اب بھی سرینگر، لداخ، دہلی اور بھارت کے دوسرے شہروں میں اسرائیلی موجود ہیں۔ کشمیر میں انٹیلی جنس امور میں بھارت کو اسرائیل کی معاونت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں ٹریننگ کا کام بھی اسرائیل سے لیا جاتا ہے۔
کشمیر میں اسرائیلی اسلحے اور ٹیکنالوجی کا استعمال
اس سلسلے میں چند اسلحہ جات کے بارے میں ہم سطور بالا میں بیان کر آئے ہیں، مزید یہ کہ بھارت نے خود کہا ہے کہ ایل او سی پر 2 ملین ڈالر خرچ کرکے تھرمل امیجنگ کیمرے (Thermal Imaging Cameras) نصب کئے گئے ہیں، جو چار کلو میٹر کے فاصلے سے انسانوں اور جانوروں میں فرق کر لیتے ہیں۔ یہ کیمرے اسرائیل سے حاصل کیے گئے ہیں۔ کشمیر میں استعمال ہونے والا اہم اسلحہ جن میں ریڈار، آٹومیٹک گنز اور سینسرز (Radars, Automatic Guns and Sensors) شامل ہیں، بھی اسرائیل سے خریدا گیا ہے۔
کشمیر اور فلسطین کی تحریک آزادی کیخلاف ایک جیسی حکمت عملی
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی حکمت عملی جو فلسطین میں اب تک رہی ہے، اب بھارت کشمیر میں استعمال کر رہا ہے، جس کے اہم پہلو یہ ہیں:
* پیلٹ اور پاواگن نیز ہیومن شیلڈ کا استعمال۔
* مکانات کو اڑا دینا اور گھروں کے اندر جا کر انہیں تہس نہس کرنا۔
* خواتین کی بے حرمتی کرنا اور مکینوں کو زدوکوب کرنا۔
* کیمیکلز کا استعمال کرنا نیز قتل و غارت کرتے ہوئے مجاہدین اور غیر مجاہدین میں فرق روا نہ رکھنا۔
* جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کرنا اور ڈرونز کا استعمال کرنا۔
* چھوٹے بچوں کو گرفتار کرنا اور ان کے خلاف مقدمے بنانا۔
* لوگوں سے کہنا کے پاکستان کے خلاف نعرہ لگاؤ اور نعرہ نہ لگانے پر زدوکوب کرنا۔
پس چہ باید کرد
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سارے حقائق کو جاننے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
* سب سے پہلے تو ہمیں یہ حقائق خود اپنے عوام اور خواص تک پہنچانے چاہئیں اور اس کے بعد پوری دنیا کے سامنے انہیں آشکار کرنا چاہیے۔ اس وقت بہت ضروری ہوگیا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کی ماہیت اور ان کے مضمرات کو آشکار کیا جائے اور پوری دنیا کو، خاص طور پر علاقے کی حکومتوں کو ان سے آگاہ کیا جائے۔
* ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی اور دوسروں کو سمجھانا ہوگی کہ عصر حاضر میں مشرق وسطٰی میں کفر کی سیاسی اور تزویراتی طاقت کا مظہر اسرائیل ہے، جبکہ جنوبی ایشیا میں بھارت ہے۔
* ایک ایسے اسٹرٹیجک مطالعات کرنے والے ادارے کی فوری ضرورت ہے، جو کشمیر اور فلسطین کے امور پر مہارت اور گہری نظر رکھتا ہو، بھارت اور اسرائیل کے مابین ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہو، تاکہ اس سلسلے میں حقائق اور امکانی نتائج فیصلہ کرنے والے اداروں تک پہنچا سکے۔ یہ بات آشکار ہوگئی ہے کہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے مابین بہت گہرا تعلق ہے اور دونوں خطوں کے عوام کے حقوق دبانے والی قوتوں کے مابین بھی گہری اور وسیع ہم آہنگی موجود ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اب مسلمانوں کی جہاں دیدہ اور بابصیرت قیادت کھل کر دونوں مسئلوں کی طرف بیک وقت توجہ دے رہی ہے۔ خاص طور پر انہی ایام میں جب بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے، ایران کے روحانی رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے عوام اور عدلیہ کے ذمہ داران کو مسئلہ کشمیر کی طرف پوری توجہ دینے کی تاکید کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایران کی اسلامی انقلابی حکومت کے بانی امام خمینیؒ بھی دونوں مسائل کی طرف بیک وقت متوجہ رہے، تاہم ایران کی گذشتہ عرصے میں زیادہ توجہ مسئلہ فلسطین کی طرف رہی ہے۔ اب پے در پے آیت اللہ خامنہ ای نے مسئلہ کشمیر کو اپنی تقریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں دونوں مسائل کے مابین ہم آہنگی زیادہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہی امر اب ہمارے دانشوروں، صحافیوں اور قلم کاروں کو بھی سمجھنا ہے اور اپنے عوام کو سمجھانا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی ان دونوں عالمی انسانی اور اسلامی مسائل کے مابین ہم آہنگی کی طرف توجہ دینا ہوگی اور انہیں سامنے رکھ کر نئی خارجہ حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔