27 November 2017 - 07:59
News ID: 431993
فونت
جہاں ایک طرف ختم نبوت کے معاملے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کی بجائے ان پر بے جا ٹیکسز کے نفاذ پر عوام سراپا احتجاج ہے، علاوہ ازیں پنجاب ہائیکورٹ کے وکیل ناصر شیرازی سمیت پاکستان بھر سے ایک خاص مسلک کے دسیوں افراد بغیر کسی جرم اور عدالتی حکم کے اغوا کرکے لاپتہ کئے گئے ہیں۔ جسکے باعث عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اگر حکومت اور سکیورٹی ادارے چاہتے ہیں کہ ملک میں دھرنوں اور احتجاج کا یہ نہ ختم ہونیوالا سلسلہ تھم جائے تو انہیں مذکورہ بالا نکات کیطرف توجہ دیکر ان مسائل کو بروقت حل کرنا ہوگا۔ تاکہ مملکت خداداد میں غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ غرض دھرنا اور احتجاج ہمیشہ ظلم و ناانصافی کیخلاف ہوتا ہے۔ اگر عدل و انصاف کا دور دورہ ہو تو نہ احتجاج کی ضرورت پیش آئیگی اور نہ دھرنا دینے کی۔
پاکستان میں مظاھرہ

تحریر: ایس ایم شاہ

حیوانوں نے آج تک کبھی احتجاج نہیں کیا۔ احتجاج عقلمند انسانوں کا خاصہ ہے۔ اگر ملک میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہو، غریبوں کو سستا انصاف ان کی دہلیز پر فراہم ہو، طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو، کرپٹ حکمرانوں کا حقیقی معنوں میں احتساب ہو، امیر غریبوں کا حق ادا کرتا رہے، ملک کے حکمران عادل ہوں، عدالت کسی سفارش کے بغیر منصفانہ اور جراتمندانہ فیصلہ دے، رشوت کا خاتمہ ہو، آئین پاکستان کے مطابق ہر پاکستانی شہری کو اپنے مکتب فکر کے مطابق عمل کرنے کا موقع فراہم ہو، ایوان اقتدار پر براجمان حکمران اس کرسی کو اپنی جاگیر سمجھنے کی بجائے اسے عوام کی امانت سمجھیں اور غلطی ہونے کی صورت میں اپنی کوتاہی، غلطی اور ظلم کا احساس و اعتراف کرتے ہوئے بروقت کرسی اقتدار چھوڑ دیں، سکیورٹی ادارے بے گناہ شہریوں کو اغوا کرنے کی بجائے ان کے مال، جان اور عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنائیں، علمائے کرام محراب و ممبر سے تکفیری سوچ اور منافرت کا پرچار کرنے کی بجائے باہمی اتحاد و اخوت کی بات کیا کریں، معاشرے کے ہر فرد میں ایثار کا جذبہ موجود ہو اور مجرم کو اپنے جرم کی سزا بلا تاخیر دی جائے... تب احتجاج اور دھرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ جب یہ اقدار ناپید ہو جاتے ہیں، تب عوام اپنا غم و غصہ نکالنے کے لئے احتجاج اور دھرنوں کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

سبب کے بغیر کوئی مسبب وجود میں نہیں آتا۔ اگر کوئی بچہ رونے لگے تو یہ کہنا غلط ہوگا کہ روکر بچے نے غلطی کا ارتکاب کیا ہے، بلکہ عقلمند انسان فوراً اس کے سبب کی طرف جائے گا۔ یہاں پر سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں اس بچے کو بھوک تو نہیں لگی۔ پھر دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ بیمار تو نہیں... اسی طرح عوام بھی جب اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچانا چاہتی ہے تو فوراً ان کے مطالبات کی شنوائی ہونی چاہئے۔ فوراً دیکھنا چاہئے کہ کہیں لوگوں پر ظلم تو نہیں ہو رہا، کہیں ان کے عقیدے پر تو کوئی آنچ تو نہیں آئی، کہیں حساس ادارے ان کے کسی عزیز کو اغوا کرکے تو نہیں لے گئے، کہیں ٹیکس کے نام پر ان کے حقوق کا استحصال تو نہیں کیا جا رہا۔ کہیں نوکریوں پر صلاحیتوں کو بنیاد بنانے کی بجائے رشوت اور مسلکی بنیادوں پر بھرتی تو نہیں کیا جا رہا اور کہیں انہیں بنیادی شہری حقوق سے محروم تو نہیں رکھا جا رہا۔۔۔۔

ختم نبوت کا معاملہ تمام مسلمانوں کا متفقہ مسئلہ ہے۔ ہم احتجاج کرنے والوں کی حمایت یا مخالفت سے غیر جانبدار ہوکر اتنی بات کہنے کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں کہ ختم نبوت کا عقیدہ تمام مسلمانوں کا مسلمہ اور مشترکہ عقیدہ ہے، اس عقیدے کے بغیر کوئی بھی شخص اپنے آپ کو مسلمان متعارف نہیں کرسکتا۔ ہر مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے۔ اس کے خلاف ذرہ برابر اونچ نیچ کو کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا۔ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے یقینا غلطی ہوگئی ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ ایک مہینے کے قریب سے جاری مظاہرین کی باتوں کی اگر شروع میں شنوائی ہو جاتی اور جو وزراء اس گھناؤنی سازش میں ملوث پائے گئے، حکومت اگر اپنی اس غلطی پر معذرت کرکے ان کی جگہ کسی اور کو معین کر دیتی، تب معاملہ سدھر گیا ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومتی اراکین معاملے کو سلجھانے کی بجائے الجھانے میں لگے رہے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور پنجاب کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اپنی اس بڑی غلطی پر تمام مسلمانوں سے معذرت کرکے اپنا استعفٰی پیش کرنے کی بجائے اپنی صفائی پیش کرتے رہے۔

اب جبکہ معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا، کچھ لوگ جان سے بھی گئے، سینکڑوں لوگ زخمی بھی ہوئے اور بہت ساری املاک کو نقصان بھی پہنچا، ملک کی بدنامی اپنی جگہ، تب جا کر وزیر قانون استعفٰی دینے پر رضامند ہوگئے، لیکن اب "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" والی بات ہے۔ معاملہ صرف یہاں آکر ختم نہیں ہوتا بلکہ بہت ہی سنگین ہے اور پورے ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ جہاں ایک طرف ختم نبوت کے معاملے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کی بجائے ان پر بے جا ٹیکسز کے نفاذ پر عوام سراپا احتجاج ہے، علاوہ ازیں پنجاب ہائیکورٹ کے وکیل ناصر شیرازی سمیت پاکستان بھر سے ایک خاص مسلک کے دسیوں افراد بغیر کسی جرم اور عدالتی حکم کے اغوا کرکے لاپتہ کئے گئے ہیں۔ جس کے باعث عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اگر حکومت اور سکیورٹی ادارے چاہتے ہیں کہ ملک میں دھرنوں اور احتجاج کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھم جائے تو انہیں مذکورہ بالا نکات کی طرف توجہ دیکر ان مسائل کو بروقت حل کرنا ہوگا۔ تاکہ مملکت خداداد میں غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ غرض دھرنا اور احتجاج ہمیشہ ظلم و ناانصافی کے خلاف ہوتا ہے۔ اگر عدل و انصاف کا دور دورہ ہو تو نہ احتجاج کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ دھرنا دینے کی۔ ورنہ ہم ہمیشہ اس دلدل میں پھنسے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرمائے اور عوام کو ان کے شر سے محفوظ فرما!
اسلام زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد ./ ۹۸۸/ ۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬