23 April 2018 - 20:22
News ID: 435676
فونت
بعض نے سعودی عرب میں فوجی بغاوت کا امکان بھی ظاہر کیا تھا۔ اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق ولی عہد محمد بن نائف کو سکیورٹی اداروں کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ محمد بن سلمان نے اگرچہ فوج اور سکیورٹی اداروں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں، لیکن اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی تک سابق ولی عہد اور دیگر شہزادوں سے ہمدردی رکھنے والے افراد سکیورٹی اداروں میں اہم مناصب پر موجود ہیں۔
بن سلمان کے محل پر جملہ ثاقب اکبر

تحریر: ثاقب اکبر

ریاض میں 21 اپریل 2018ء کی شب اچانک فائرنگ کی پیہم آواز سے فضا گونج اٹھی، خوف کے سائے چھا گئے، سرکاری خبر رساں ایجنسی نے تو فوری طور پر کچھ نہ کہا، لیکن سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر یہ خبریں ابھرنا شروع ہوئیں کہ ریاض میں شاہی محل کے نزدیک فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔ اس دوران میں یہ بھی خبر آئی کہ شاہ سلمان اور ان کے نونہال محمد بن سلمان کو فوری طور پر ان کے محل سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے۔ سرکار کی طرف سے بعد میں جو اعلان سامنے آیا، اس کے مطابق شاہ سلمان اس وقت اپنے محل میں موجود ہی نہ تھے، لیکن زیادہ تر ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی کہ باپ بیٹے کو خطرے کی وجہ سے محل سے کہیں اور لے جایا گیا۔ کچھ دیر بعد ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی ویب سائٹ پر ریاض پولیس کے ترجمان کا بیان جاری کیا گیا، جس میں تصدیق کی گئی کہ رات 7 بجے کر 50 منٹ پر ریاض میں خزامہ کے قریب سکیورٹی پوائنٹ پر تفریح کے لئے استعمال ہونے والے ایک چھوٹے ڈرون کو اڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ ڈرون کو نشانہ بنا کر مار گرایا گیا۔ شاہی محل میں خوف کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ اس واقعے سے دو روز قبل سعودی عرب میں صوبہ عسیر میں چیک پوسٹ پر فائرنگ کے نتیجے میں چار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں اور چار دیگر زخمی ہیں۔ اس حوالے سے سعودی بیان میں کہا گیا تھا کہ حملہ آور سعودی شہری تھے۔ گذشتہ برس سعودی شہر جدہ میں ایک شاہی محل کے باہر فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے، جس کے نتیجے میں سکیورٹی پر مامور دو شاہی گارڈ ہلاک ہوگئے تھے اور تین دیگر زخمی ہوئے تھے۔ سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایک 29 سالہ شخص ڈرائیو کرتا ہوا جدہ کے السلام محل کے دروازے تک پہنچ گیا تھا اور اس نے سکیورٹی پر متعین محافظوں پر گولیاں چلائی تھیں۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے مشرقی شہر قطیف میں خود ساختہ بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک فوجی اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔

حالیہ واقعے کو عرب ذرائع نے رپورٹ کیا ہے، جن کے مطابق سعودی عرب کے شاہی محل میں شدید فائرنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کو ایک فوجی ٹرک کے ذریعے شاہی محل سے نکالا گیا۔ اطلاعات کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ چھوٹے ہتھیاروں سے شروع ہوا۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ ابھی تک یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ایک کھلونے کو مار گرانے کے لئے اس پیمانے پر فائرنگ کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ پولیس کے ترجمان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فائرنگ خودکار سکیورٹی نظام کے تحت اچانک شروع ہوئی۔ بہرحال واقعے کے حوالے سے طرح طرح کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔ اس سلسلے میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ فائرنگ کا کوئی نشان آسمان پر دکھائی نہیں دیا جبکہ ڈرون کو مارنے کے لئے آسمان پر گولیوں اور روشنی کی علامت ہونی چاہیے تھی، لیکن ایسی کسی علامت کی کوئی تصویر سامنے نہیں آسکی۔ جبکہ اس کے برعکس بعض سعودی شہریوں نے جو صورت حال کا نسبتاً قریب سے جائزہ لے رہے تھے، محل کے اندر ہونے والی فائرنگ کی خبر دی ہے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر بعض تصاویر اور فلمیں بھی سماجی رابطے کی سائٹس پر جاری کی ہیں۔ اس سے اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ مسئلہ جو بیان کیا گیا ہے، شاید اس سے مختلف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کو یہ گمان ہوا کے شاہی خاندان کے اندر بغاوت ہوگئی ہے۔

حال ہی میں سامنے آنے والی ایک خبر سے اس امکان کو تقویت پہنچتی ہے، جس کے مطابق سعودی عرب کے ایک سیاسی اہلکار غانم الدوسری نے کہا ہے کہ ریاض میں سعودی عرب کے شاہی محل پر سابق ولی عہد محمد بن نائف کے حامیوں نے حملہ کیا تھا۔ انہوں نے اس امکان کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت شاہی محل پر دوبارہ حملہ کرسکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سعودی حکومت اس اہم واقعے کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کی یہ کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ محمد بن سلمان امریکہ کے تمام مطالبات کو تسلیم کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانا چاہتا ہے، لیکن اسے اندرونی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ بعض نے سعودی عرب میں فوجی بغاوت کا امکان بھی ظاہر کیا تھا۔ اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق ولی عہد محمد بن نائف کو سکیورٹی اداروں کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ محمد بن سلمان نے اگرچہ فوج اور سکیورٹی اداروں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں، لیکن اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی تک سابق ولی عہد اور دیگر شہزادوں سے ہمدردی رکھنے والے افراد سکیورٹی اداروں میں اہم مناصب پر موجود ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ڈرون کے مقابلے کے لئے ہنگامی حالات میں سعودی ایئرفورس کیوں حرکت میں نہیں آئی اور ہنگامی حالات میں کیوں فوجی ہیلی کاپٹر آسمان پر نمودار نہیں ہوئے۔ ان ساری افواہوں کے پیچھے وجوہات موجود ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے بہت سے شہزادوں اور شہزادیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض کے ساتھ معاملات طے پا گئے اور انہیں آزاد کردیا گیا، لیکن ابھی تک شاہی خاندان کے بہت سے ارکان گرفتار ہیں۔

علماء اور مبلغین پر بھی یلغار شروع ہے، جس کی خبریں پوری دنیا میں نشر ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں ایک خطیب کو محمد بن سلمان کی آزاد روش پر تنقید کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور پھر جس طرح سے شاہی ہرکارے اسے گھسیٹ کر لے گئے، یہ سب اس ویڈیو کا حصہ ہے۔ قدامت پسند مذہبی حلقوں کو یقینی طور پر محمد بن سلمان کے حالیہ اقدامات ہرگز قبول نہیں، جن کے مطابق انہوں نے ایک کسینو کے بعد ریاض میں ایک سینما کا بھی افتتاح کروا دیا ہے۔ دیگر اقدامات بھی یکے بعد دیگرے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں شاہی محل کے اندر ایک اضطراب کی کیفیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ بعض نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک کھلونا ڈرون اتنا ڈراﺅنا واقع ہوسکتا ہے تو اگر واقعاً کسی روز کوئی میزائل قریب آپہنچا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا اور اس کا امکان اس لئے موجود ہے کہ سعودی فضائیہ مسلسل یمن پر گولہ باری کرکے وہاں انسانی آبادی کا قتل عام کر رہی ہے۔ دفاع کرنے والی یمنی فورسز کے پاس اب ایسے میزائل آچکے ہیں کہ جنھیں وہ ریاض کے علاوہ کئی شہروں کی طرف فائر کرچکے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نے اپنے ہدف کو نشانہ بھی بنایا ہے۔ خارجی اور داخلی مسائل سعودی بادشاہ اور اس کے ناتجربہ کار ولی عہد بیٹے کے لئے دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ شاید وہ کسی روز ہولناک مستقبل کی تصویر کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔/۹۸۸/ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬