رسا نیوزایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر ، ایران کے نامور شیعہ عالم دین حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے اج صبح اپنے تفسیر کے درس میں جو مسجد اعظم قم حرم مطھر حضرت معصومہ قم میں منعقد ہوا سوره مبارکه احزاب کی ابتدائی ایات کی تفسیر میں کہا: سوره مبارکه احزاب مدینہ میں نازل ہوئی اور اس سورہ کا اھم محور اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے سیاسی مسائل ہیں ۔
نظام اسلامی کی تاسیس و تبیین ، اسلامی فوج اور اسلامی معیشت و اقتصاد کا مرکز مدنی سورہ میں بیان کیا گیا ہے ، سوره مبارکه احزاب میں مرجوفون کا تذکرہ ہے ، مرجوفون وہ لوگ ہیں جو رجفہ دار، لرزه دار اور خرافات معاشرہ تک منتقل کیا کرتے تھے ، بے بنیاد خبریں معاشرہ میں اضطراب کا سبب ہیں ۔
سوره احزاب میں پانچ دفعہ «یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ» آیا ہے جو خاص اھمیت کا حامل ہے ، اس سورہ میں کبھی فوجی مسائل کا تذکرہ ہے تو کبھی خانوادہ کے مسائل کا بیان ہے جو ائندہ بہت ساری مشکلات کی جڑ بن سکتا ہے وگرنہ بذات خود خانوادہ کے مسائل اس سطح پر نہیں ہیں کہ ان کا بیان کیا جائے ۔
ایت «یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ» یہ اس بات کی بیان گر ہے کہ گھرانہ کی مشکلات پورے معاشرہ پر اثر انداز ہے ، یا یوں فرمایا : «وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْأُولَىٰ» جیسا کہ جنگ جمل کی بنیاد بھی گھر میں پڑی ۔
انہوں نے ایت «یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِین إِنَّ اللَّـهَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا» کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگاہ رہیں کہ حکومت کی تشکیل و تاسیس آسان کام نہیں ہے ، ایت میں «یَا أَیُّهَا» ندا انسانوں کو متوجہ کرنے کے لئے یا غفلت سے باہر نکالنے کے لئے اور یا مسائل کی اھمیت کو بیان کرنے کے لئے ہے ، یا ایها النبی بھی موضوع کی اھمیت کا بیان گر ہے ، خداوند متعال نے قران کریم میں کہیں بھی مرسل اعظم کو ان کے نام سے خطاب نہیں کیا ، اور اگر سوری ال عمران اور فتح میں اپ کو اپ کے نام سے یاد کیا گیا تو وہ اس لئے کہ لوگ جان لیں کہ حضرت کے پاس رسول الله یا نبی الله کا عھدہ بھی موجود ہے ، ان سوروں میں خداوند متعال یہ بیان کرنا چاھتا ہے کہ اپ کا ایک منصب ہے جو خدا کی رسالت ہے ، خدا نے جس طرح دیگر انبیاء کو ان کے نام سے یاد کیا رسول اسلام کو یاد نہیں کیا ، جو خود ھمارے لئے بھی درس ہے کہ رسول اسلام کا احترام کریں ۔
قران کریم کے نامور مفسر نے یاد دہانی کی : خداوند متعال نے سورہ احزاب کی ابتدائی ایتوں میں پیغمبراسلام سے خطاب میں کہا کہ اے نبی اپنے اھم وظائف کے پیش نظر خدا کا تقوی اختیار کریں ، کیوں کہ ان وظائف کی انجام دہی بغیر تقوی الھی کے ممکن نہیں ، جنگ ، خون ریزی ، اسیری ، اصحاب کی شھادت اپ کے روبرو ہے ، اپ اس راہ میں اپ کے عزیز مارے جائیں گے اور اپ کو ذیت و ازار کا سامنا ہوگا تقوے کے بغیر اس راستہ کو طے کرنا ناممکن ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: اگر پیغمبر اسلام معاشرہ کی تعمیر میں معمولی طور و طریقہ اپنائیں تو کام نہایت دشوار ہوگا لھذا ضروری ہے کہ تقوی الھی ساتھ ساتھ رہے ، حضرت ابراهیم(ع) و اسماعیل(ع) نے کعبہ کی تعمیر کی اور ایک مدت کے بعد یہی کعبہ بت کدہ ہوگیا ، لوگوں نے کعبہ میں بت رکھدیئے مگر پیغمبر اسلام نے ایک بار بھی ان بتوں کو برا بھلا نہیں کہا انہیں گالیاں نہیں دیں بلکہ کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے ، اگر اپ بھی چین و سکون کی زندگی بسر کرنا چاھتے ہیں اور کفریہ فتوی سے روبرو نہیں ہونا چاھتے ، میانمار ، بنگلادیش اور دنیا کے دیگر کونے میں بے رحمانہ قتل عام نہیں دیکھنا چاھتے تو پیغمبر اسلام کی سیرت پر عمل کریں ، پیغمبر کے راستہ پرچلیں اور دشمنوں کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے سے پرھیز کریں ۔
آیت الله جوادی آملی نے تولی و تبرا کو یکجا کرنا اور مسلمانوں کے خون کی حفاظت اسلامی اصول میں سے شمار کیا اور کہا: پیغمبر اسلام نے تقوے الھی کے ذریعہ معاشرہ کا ادارہ کیا ، کیوں کہ اگر گالیاں دیں گے تو گالیاں سنیں گے ، گالیوں کے ذریعہ مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ، ، اگر کفر بولیں گے تو کفر سے روبرو ہوں گے ۔
انہوں نے مزید کہا: پیغمبر اسلام کے راستہ کی حافظت ، دلیلوں کے قیام اور استدلال کی ذریعہ قدم اگے بڑھائیں ، قران نے پیغمبر اسلام سے کہا کہ کفار و منافقین کمین کئے بیٹھیں ہیں ، مرجفون خرافاتیں پھیلاتے ہیں ، لھذا اپ تقوا اختیار کریں ، کبھی لوگ تجویز پیش کرتے ہیں جس پر انسان غور کرتا ہے مگر کبھی لوگ سامراجی انداز اپناتے ہیں پیغمبر اسلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا ، پیغمبر کسی کی باتوں کی اطاعت نہیں کرسکتا ، اگر کوئی پیغمبر پر اپنی بات کی تحمیل کرنا چاھے تو وہ کافر ہے ۔
انہوں نے آیت وَاتَّبِعْ مَا یُوحَىٰ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ إِنَّ اللَّـهَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا [اور جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اسی کا اتباع کرتے رہیں کہ اللہ تم لوگوں کے اعمال سے خوب باخبر ہے]کی تلاوت کرتے ہوئے مزید کہا : خداوند متعال مستقل وحی نازل کررہا ہےکہ تمہارے اندر کسی طرح کی کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی ہوشیاررہو یادرہے جب بھی کوئی کام کرو گے اور تم اور تمہاری امت جو بھی سوچو گے خدا وند کو اس کی خبر ہے اور اس کی عدالت میں تمہیں جواب دینا پڑے گا۔
قرآن کریم اور روایات میں جہاں بھی لفظ (کان) کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے زمانہ اور جگہ سے بڑھ کر دی گئی ہے ، علیم اور حکیم خدا ہمیشہ تم سے رابطہ میں ہے تمہارے اندر کوئی کمی نہیں ہے (وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِین) کیوں کہا ؟ اس لیے کہ وہ علم اور حکمت کا سرچشمہ ہے اور (وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِین) کیوں کہا ؟ اس لیے کہ وہ علم و حکمت کا سر چشمہ ہے ، کہا گیا ہے جو خدا کی طرف سے آئے اس کی پیروی کروعام مسائل میں تو یہ پیروی آسان ہے لیکن حکومت اور اس طرح کے مسائل میں ذرا سخت کا م ہے، اگر کوئی کہے کہ تم جنگ کرو میں تمہاری مدد کروں گا لیکن اگر کوئی خدا کے مقابلہ میں کھڑا ہو جائے تو ضروری نہیں کہ خدا کہیں اور سے مدد لے اگر وہ نافرمان کو شکست دینا چاہے تو ضروری نہیں کہ لشکر کشی کرے بلکہ انسان کے اعضاء و جوارح ہی خدا کا لشکر ہیں ، انسان ایک بات کہتا ہے رسوا ہو جاتا ہے ، ایک کام کرتا ہے اسی کی وجہ سے ذلیل ہو جاتا ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام کا مسئلہ جوہری توانائی کے موضوع سے کم نہیں ہے۔
جہاں تک آپ سے ممکن ہو سکے بہترین راستہ کا انتخاب کیجیے ، خدا بھی آپ کی مدد کرےگا ، اگر کوئی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ معین ہے ، معاشرتی اور مقبول ادب کا لحاظ رکھے اور بت پرستوں کے ساتھ دلیل اور برہان کے ذریعہ بات کرے ، بتوں کو برا بھلا کہنے سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں اسی طرح گالیاں دینے اور لعن طعن کرنے سے بھی کوئی مسئلہ نہیں حل ہوتا ہم اکیلے تھوڑی اس دنیا میں رہتےہیں، ہمیں مختلف قومی، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل درپیش ہیں کہ جنہیں عاقلانہ طور پر حل کرنا چاہئے ، ہمیں تولیٰ اور تبرّا میں امن و سلامتی کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے جو ایک سیاسی اور سماجی مسئلہ ہے۔
فقہی مسائل کو مراجع عظام ، علماء اور اصولی حضرات حل کریں گے لیکن ایک طرف تولیٰ اور تبرّا کا اصول اور دوسری طرف مسلمانوں کی جان کی حفاظت ہمیں ان دونوں کو ساتھ میں لےکر چلنا چاہئے ، یہ مسئلہ ایٹمی توانائی کے مسئلہ سے کم نہیں ہے، ہوتا کیا ہے اس طرف سے مستقل گالیاں اور لعنتیں اور اس طرف سے بلاناغہ قتل عام، آپ لوگ سنتے ہی ہوں گے کہ ہر روز کہیں نہ کہیں قتل عام ہوہاہے آخر اس کا حل ہے ، یا حل کریں یا پھر ہر روز برما ، پاکستان ، بنگلادیش کے قتل عام پر افسوس کرتے رہیں ، اگر یہ دین امن و امان برقرار کرنے کے لیے آیا ہے تو پھر اس کا حل ہو نا چاہئے ، فقط فقہی اور اصولی حل نہیں جو صرف حوزہ ٔعلمیہ ہی میں کیا جائے ، اس کے لیے سلامتی حل ، مذاکرات وغیرہ ہونا چاہئے لیکن ہم تھوڑا رو لیتے ہیں اور افسوس کر لیتے ہیں ، رونا ، افسوس کرنا ، ایصال ثواب کی مجلس کرنا یہی ہمارا کام رہ گیا ہے۔
آخر میں ان سے سوال کیا گیا کہ لعنت اور برا بھلا کہنے میں کیا فرق ہے؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا : لعنت ایک کلی چیز ہے ، خدا وند متعال نے کلی طور پر فرمایا : أُولَـٰئِکَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللَّـهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ [جو لوگ کافرہوگئے اورحالت کفر میں مر گئے ان پر اللہ ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے]
ان کلی اور عمومی چیزوں کو ہم بھی مانتے ہیں اور دوسرے افراد بھی مانتے ہیں لیکن ان کو جزئیات میں لاگو کرنا ایک مسئلہ ہے۔
پہلے ایسا ہوتا تھا کہ اگر دو ملکوں کے درمیان جنگ ہورہی ہوتی تھی اسی دوران اگرایک ملک کا بادشاہ مر جاتا تھا تو ایک ہفتہ تک دونوں کے درمیان جنگ بندی ہوجاتی تھی لیکن آج جب سعودی عرب کا بادشاہ مرتا ہے تو کچھ لوگ اس ملک کے سفارت خانہ کے سامنے جا کرمٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ، یہ کام نہ واجب ہے نہ مستحب نہ عقل میں آنے والا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کسی روایت میں آیا ہے، اسے ترک بھی کیا جاسکتا ہے ، اب اس کے بعد ہمیں یہ امید رہے گی کہ وہ ہمارے حاجیوں کے لیے قالینیں بچھایں گے، حوزۂ علمیہ کے علمی اور فقہی کام اپنی جگہ پر ہیں لیکن اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ کام عملی اور عالمی شکل میں سامنے آیں تو سب کو متحد ہونا پڑے گا پوری قوم کو ایک ہونا پڑے گا ویسے ہی جیسے ہم جوھری توانائی کے سلسلہ میں اتحاد کا ثبوت دے رہے ہیں ، آخر کب تک ہم یہ رنج اٹھاتے رہیں گے