رسا نیوز ایجنسی کی رھبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی خبر رساں سائٹ سے منقولہ رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گذشتہ روز عدلیہ کے سربراہ ، اعلی صوبائی ججوں ، سرکاری وکلاء اور اعلی حکام کے ساتھ ملاقات میں کہا: امریکہ کا مقصد عراقی عوام کو جمہوریت سے محروم کرنا اور عراق کی ارضی سالمیت کے لئے خطرات پیدا کرنا ہے ۔
رہبر معظم نے آیت اللہ لاریجانی کے نئے پانچ سالہ دور کے لئے چھ اصلی ترجیحات بیان کرنے کے ضمن میں ملک کے عام مفادات اور بڑے مسائل میں تینوں قوا کے سربراہان کے درمیان باہمی تعاون، اتحاد اور یکجہتی کو بہت ہی ضروری اور اہم قراردیا اور امریکہ اور مغربی تسلط پسند طاقتوں کے فتنہ پرور اور شرانگیز ہاتھوں کو عراق کے حالیہ واقعات کے پس پردہ قراردیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے عراق میں ہر قسم کی امریکی مداخلت کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا : ایران کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ عراقی عوام ، عراقی حکومت اور عراق کے دینی مراجع عراق کے موجودہ فتنہ اور بحران کو ختم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں شہدائے ہفتم تیر بالخصوص شہید آیت اللہ بہشتی اور اسی طرح شہید آیت اللہ قدوسی کی یاد تازہ کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا اور عدلیہ کو دیگر اداروں کی نسبت اسلامی نظام کے تمام اداروں کی طرف سے حق اور عدل و انصاف کے قیام کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: اسی بنیاد پر عدلیہ سے توقعات بہت زیادہ ہیں اور عدلیہ کے سربراہ جو ایک عالم، فاضل ، متدین ، مجتہد، خوش فکر، انقلابی ، مسائل سے آگاہ اور شجاع انسان ہیں ان کی ممتاز توانائیوں اور صلاحیتوں کے پیش نظر اہداف اور توقعات تک پہنچنا ممکن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ پانچ سال میں عدلیہ کے سربراہ اور عدلیہ کے اعلی حکام کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے نئے دور کے لئے چھ اصلی ترجیحات کو بیان کیا۔
پالیسیوں کے نفاذ کے لئے مخصوص اور واضح طریقہ کار پہلی ترجیح تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عدلیہ سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ اور نگرانی کے لئے واضح اور مخصوص طریقہ کار اور منصوبہ بندی کے ساتھ ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ججوں اور دیگر اعلی اہلکاروں کی کار کردگی پر نگرانی اور نظارت کو عدلیہ کی دوسری اصلی ترجیح قراردیتے ہوئے فرمایا: نظارت اور نگرانی کا عمل اتنا وسیع اور سنجیدگی پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ بعض کاموں پر اشکالات اور شکایات کم سے کم سطح تک پہنچ جائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے احکام کے نفاذ میں عدم تاخیر کو تیسری ترجیح کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرمایا: احکام کے نفاذ میں طولانی تاخیر بعض نقائص کا مظہر ہیں جنھیں شناخت کرکے برطرف کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقدمہ کی سماعت کے طولانی ہونے کے سلسلے میں ایک نکتہ کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: مقدمہ کے متوسط طور پر طولانی ہونے کے اعداد شمار میں کمی اچھی بات ہے لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ کتنے عرصہ میں کتنے مقدمات کو کتنی مدت کے اندر نمٹایا گیا اس کا اوسط جائزہ لینا چاہیے اور اگر تعداد زیادہ ہو تو اس میں کمی کرنی چاہیے۔
افراد کی تربیت ، جانشینی کی منصوبہ بندی، چوتھی ترجیح تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب سلامی نے اشارہ کیا اور جرم کی روک تھام کو پانچویں ترجیح کے طور پر بیان کرتے ہوئے فرمایا: جرم کی روک تھام کا موضوع ایک عام موضوع ہے جو کسی ایک قوہ کے دائرے سے باہر ہے لہذا عدلیہ کو اس سلسلے میں دیگر اداروں کے ساتھ مضبوط اور قریبی رابطہ قائم رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ مشترکہ نقاط کو مضبوط ، مستحکم اور قوی بنانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: جرم کی روک تھام مکمل طور پر ایک علمی موضوع بھی ہے لہذا اسی وجہ سے جرم کے عوامل و عناصر کی پہچان اور اس سے رونما ہونے والے خطرات کی شناخت کے لئے اس موضوع کے ماہرین اور مفکرین کے ساتھ صلاح و مشورہ اور اس سلسلے میں ان سے تعاون حاصل کرنا چاہیے۔
تینوں قوا کے درمیان باہمی تعاون میں اضافہ چھٹی اور آخری ترجیح تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں ہمیشہ تینوں قوا کے سربراہان کو اس بات کی تاکید کرتا رہا ہوں کہ وہ اپنے درمیان تعاون میں اضافہ پر توجہ دیں اور یہ تعاون اداروں کے اندرونی مسائل اور ملک کے بڑے مسائل کے دو شعبوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مختلف مسائل میں اسلامی نظام کے مجموعہ کی آواز یکساں طور پر سنائی دینی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف اور گوناگوں مسائل میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاریجانی کے منطقی، مدلل اور اچھے مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تینوں قوا کے سربراہان کے درمیان باہمی تعاون اور ہمفکری کے ذریعہ حکومت کے مختلف شعبوں میں ایسے مؤقف کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملکی مفادات اور مصالح کو تمام امور سے بالاتر قراردیتے ہوئے فرمایا: تینوں قوا کے سربراہان کو اپنے مشترکہ جلسات کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیےکیونکہ ان جلسات کے ذریعہ بعض مشکلات کو حل کرنے اور ملکی امور کی پیشرفت اور بعض شکایات کو دور کرنے میں اچھی خاصی مدد ملتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اہم مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے اندر جو مشکلات موجود ہیں یا جن مشکلات کے ہونے کے بارے میں وہم ہے وہ سب قابل حل ہیں بشرطیکہ ہم اپنی قابلیت اور اندرونی صلاحیتوں پر قدرے اعتماد کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کے ساتھ عالمی تسلط پسندنظام کی مخالفت اور عداوت ملک کے لئے ایک اصلی چیلنج ہے اور ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا اور درک کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم تسلط پسند نظام کی عداوت اور دشمنی پر توجہ نہیں دیں گے تو ملک کے مسائل کے تجزیہ اور تحلیل میں اشتباہ کے مرتکب ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: جو افراد دشمن کی معاندانہ رفتار کو نہیں دیکھنا چاہتے وہ ایسے افراد کے مانند ہیں جو دشمن کے سامنے اپنی آنکھ کو بند کردیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے ساتھ تسلط پسند نظام کی دشمنی اور عداوت کی اصلی وجہ تسلط پسند نظام کی بنیادوں کے متزلزل اور کھوکھلے ہونے اور اسلامی نظام کے عدل و انصاف پر مبنی نئے پیغام کو قراردیا اور عراق کے حالیہ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک بالخصوص امریکی حکام عراق میں فتنہ اور بحران کو جاری رکھنے کے لئے بعض جاہل ،نادان اور متعصب لوگوں سے سؤ استفادہ کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق کے حالیکہ واقعات کا اصلی مقصد اس ملک کے عوام کو ان نتائج سے محروم کرنا ہے جو انھوں نے امریکی مداخلت کے باوجود استقامت اور پائداری کے ذریعہ حاصل کئے ہیں جن میں سب سے اہم عوامی اور جمہوری نظام کی بالا دستی اور حکمرانی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ عراق میں ہونے والے انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت سے راضی نہیں ہے اور وہ عراقی عوام کے منتخب نمائندوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ عراقی عوام پر اپنے نمائندوں کو مسلط کرنے کی راہ ہموار کررہا ہے اور عراق میں جاری فتنہ امریکہ کی اسی سازش کا نتیجہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق میں جاری فتنہ کو مذہبی لڑائی میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں امریکی حکام کے بیانات اور کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عراق میں جاری لڑائی شیعہ اور سنی لڑائی نہیں ہے بلکہ امریکہ اور مغربی تسلط پسند طاقتیں صدام دور کے باقی ماندہ جاہل ، نادان اور متعصب سلفی وہابی تکفیریوں سے پیدل فوج کے طور پر استفادہ کرکے عراق کے امن و ثبات اور عراق کی ارضی سالمیت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق میں فتنہ پھیلانے والے عناصر ، عراق کے استقلال پر اعتقاد اور ایمان رکھنے والے سنیوں کے بھی اتنے ہی دشمن ہیں جتنے شیعوں کے دشمن ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق میں اصلی جھگڑا ان لوگوں کے درمیان ہے جو یا عراق کے استقلال کے خواہاں ہیں یا عراق کو امریکی کیمپ سے ملحق کرنا چاہتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق میں جاری فتنہ کو ختم کرنے کے سلسلے میں عراقی عوام کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو کافی قراردیتے ہوئے فرمایا: ہم عراق میں امریکہ اور دیگر ممالک کی مداخلت کے شدید خلاف ہیں اور ہم اس کی تائید نہیں کرتے ہیں کیونکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عراقی عوام ، عراقی حکومت اور عراق کے دینی مراجع ،موجودہ فتنہ کو ختم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور انشاء اللہ وہ اس فتنہ کو ختم کردیں گے۔
اس ملاقات کے آغاز میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاریجانی نے گذشتہ پانچ برس میں عدلیہ کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: تہران اور قم میں در تخصصی مراکز کے قیام ، انسانی تربیت میں کمی اور کیفی لحاظ سے اضافہ ، افراد کی خدمت کے آغاز اور خدمت کے دوران تربیت ، عدلیہ کے حکام اور ججوں کی کارکردگی پر کڑی نظارت، خدمات رسانی کو بہتر بنانے کے لئےجدید ٹیکنالوجی سے استفادہ ، عدالتی پولیس کے قیام کے بل سمیت دیگر قانونی دستاویزات کی تدوین اور ترمیم عدلیہ کے اہم اقدامات میں شامل ہیں۔
آیت اللہ آملی لاریجانی نے بجٹ اور استخدام میں استقلال کو عدلیہ کے لئے اہم چیلنج قراردیا اور کم سے کم مدت میں مقدمات کی سماعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دیگر ممالک کی نسبت ملک میں مقدمات کی سماعت اور رسیدگی کی مدت قابل قبول ہے۔
عدلیہ کے سربراہ نے دوسرے قوا کے ساتھ تعاون کو بہتر قراردیتے ہوئے کہا: ہم عدلیہ کے استقلال کی حفاظت کے ساتھ قوہ مجریہ اور قوہ مقننہ کے ساتھ بہتر تعاون اور تعامل کی کوشش کرتے ہیں۔