13 August 2014 - 15:39
News ID: 7134
فونت
رسا نیوز ایجنسی - تاریخ کا پہیہ جب الٹا چلانے کی کوشش کی جائے تواس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ قدرت اپنے انتظام سے اس دنیا کوچلاتی ہے۔ اس انتظام میں قدرت والے نے انسان کی حدود کار کو متعین کر چھوڑا ہے، لیکن جب حضرت انسان اپنی مصنوعی کاوشوں سے مخلوق کی بجائے خالق کا کرداراداکرنے کے لیے فرعون بن بیٹھتا ہے اورقدرت کے انتظامات میں دخیل ہوتا ہے تو برآمد ہونے والے نتائج کو سمیٹنا اس کے بس میں نہیں رہتا اور ایک طبقے کے غلط فیصلوں کے باعث آنے والی نسلیں ایک عرصے تک مصائب و آلام
اسرائيل

 

ڈاکٹر ساجد خاکوانی


اسرائیل کی ریاست کا تجربہ اسی قبیل سے تعلق رکھتاہے۔ جس قوم کو اس کی بداعمالیوں اور ناشکریوں کی پاداش میں منصب امامت سے برخواست کردیاگیا تھا، دنیاکے چند ’’انسانیت کے ٹھیکیدار سیکولر‘‘ شریروں نے اسے پھر قیادت کی باگ دوڑ تھمادی، جس کے نتائج آج پوری دنیا کولے ڈوبے ہیں۔


فلسطین والے تو محض اپنی جانوں اور عمارتوں وغیرہ کاہی جرمانہ اداکررہے ہیں اگرچہ و ہ بھی بہت بھاری قیمت ہے لیکن پوری دنیا پر یہودیوں کے سرمایادارانہ نظام نے سود اور کساد بازاری و مہنگائی کی جو لعنت مسلط کر رکھی ہے اور اس کے نتیجے میں عریانی، فحاشی، ننگ وبے حیائی اور خودغرضی و سفاکی اور بین الاقوامی کھنچاؤکی جو عالمی لہرنے تباہی مچارکھی ہے وہ اس کے سوا ہے ۔


اسرائیل نے غزہ سمیت پورے فلسطین میں قتل وغارت گری اورتباہی و بربادی کی جو اندھی مچارکھی ہے اس  کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فلسطینی اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کر جاتے لیکن اس کے برعکس تاریخ کے پہیے کی الٹی حرکت سے نتائج بھی الٹے مرتب ہو رہے ہیں اور اسرائیل کی ریاست سے یہودیوں کا بہت زیادہ کثرت سے انخلاء جاری ہے۔ یہودیوں کے ہاں اسرائیل کوچھوڑنے کے لیے ’’یریداہ (eridah)‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیل کی شہریت اختیارکرنے کے لیے ’’عالیاہ(liyah)‘‘کی اصطلاح رائج ہے۔ یہ دونوں عبرانی زبان کے الفاظ ہیں اور توریت اور طالمود، یہودیوں کی فقہ، کی کتب میں بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔


یہودی کتب میں فلسطین کو بلند مقام کہا گیا ہے چنانچہ ’’عالیاہ‘‘ کا مطلب بلندی کی طرف چڑھنا ہے اور ’’یریداہ‘‘ کا مطلب بلندی سے اترنا ہے۔ صہیونیت میں ’’یریداہ‘‘ کی مذمت کی جاتی ہے اوراس کو مذہبی لحاظ سے ایک مکروہ فعل گردانا جاتاہے۔ اسرائیل نے اس مقصد کے لیے باقائدہ قانون سازی کررکھی ہے اور’’ہالاخاہ‘‘ نامی قانون شہریوں کے اسرائیل سے نکلنے میں مذاحم ہے۔ اس سب کے باوجود مصنوعی طور پر آباد کیے گئے یہودی غیرملکیوں کواسرائیل سے نکلنے سے کوئی نہ روک  سکا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداددن بدن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔


صہیونی قیادت جوسُہانے خواب اور سبزباغ دکھا کر یہودیوں کو پوری دنیا سے سمیٹ کر اسرائیل میں کھینچ لائی تھی، اسرائیلی افواج کے ظلم و ستم اوروحشت و درندگی نے ان سُہانے خوابوں کوشرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا اور ہزاروں سال زندہ رہنے کے حریص، سونے ، چاندی اور دھن دولت کے پجاری آئے دن کی گھن گھرج سے تنگ آکر اب یہ مقدس سرزمین اسرائیل چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔


انسانیت دشمن سیکولرازم کی سازشوں کے نتیجے میں 1948ء میں قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست 1951ء تک کے مختصر ترین عرصے میں کم و بیش سات لاکھ غیرملکیوں کواپنی شہریت دے چکی تھی۔اسرائیل کے حالات دیکھ کر 10% لوگ توفوراَ ہی واپس چلے گئے اور 953 1ء سے عالمی مہم جوئی کے باوجود غیرملکی یہودیوں کی آمد کلیۃ بند ہو گئی۔ گویا چند سالوں میں ہی اس ذہین و فتنین و فتنہ پرورقوم نے اپنی مذہبی ریاست کا مخدوش مستقبل بنظرغائر بھانپ لیا۔ ابتداَ تو لو گ تعلیم، روزگار، علاج اور سیروسیاحت کے بہانے نکل جاتے اور اسرائیل کی شہریت ترک کر کے تو دوسرے ملکوں کی قومیت اپنا لیتے لیکن 1970ء کی دہائی میں یہ تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور یہودی اپنی ہی حکومت و ریاست پر بے پناہ تنقید کرتے اورملک چھوڑ کر فرار ہوجاتی۔


1980ء تک یہ تعداداتنی زیادہ ہو گئی کہ اسرائیلی نائب وزیراعظم سمہاایرک( Simha Erlich) اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے  سربراہ شموئل لاحس (hmuel Lahis) نے مل کر تحقیقات کا آغاز کیاجس کے نتیجے میں ’’لاحس رپورٹ‘‘ کے مطابق صرف امریکہ میں ہجرت کر جانے والے اسرائیلی یہودیوں کی تعدادتین سے پانچ لاکھ کے درمیان تھی اور وہ زیادہ تر نیویارک اور لاس اینجلس میں مقیم تھے۔


1982ء کی اسرائیل لبنان جنگ اور1983 کے اسرائلی بنک اور اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج کے بدترین بحران نے یہودیوں کے انخلاء میں مہمیزکا کام کیا اور درپردہ اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی سیاستدان اس پر کئی بار سرجوڑکر بیٹھے اور پورازورلگایا کہ دنیا کو اس بات کا اندازہ نہ ہو اوراگر یہ حالات اسرائیل سے نکل بھی پائیں تو صحیح تعداد پتہ نہ چل پائے۔ اس رازکا بھانڈہ اس وقت پھوٹا جب اسرائیلی ماہر آبادیات (emographer)’’پائینی ہرمن‘‘ نے ایک انٹرویومیں انکشاف کیا کہ اسرائیل سے یہودیوں کے انخلاء کی جوتعداد حکومت بتارہی ہے حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے۔


2003ء میں اسرائیلی وزارت نوآبادیات نے ساڑھے سات لاکھ اسرائیلوں کی تعداد بتائی جو ملک چھوڑ کرامریکہ اور کینیڈامیں آباد ہوچکے تھے، یہ تعداد اسرائیل کی کل آبادی کا 2.5% حصہ بنتی ہے۔ پانچ سال کے مختصرعرصہ بعد 2008ء میں اسی وزارت نے مزید سات لاکھ اسرائیلوں کے انخلاء کی تصدیق کی جن میں سے ساڑھے چارلاکھ برطانیہ میں اور باقی ماندہ یورپ کے دیگر ملکوںمیں جابسے ہیں۔


2012ء میں عالمی ادارہ ( Pew Research Center ) نے مذہبی مہاجرین کے ذیل میں بتایا کہ اس وقت تین لاکھ تیس ہزار سے زائد اسرائیل میں پیدا ہونے والے یہودی شہری اپنے ملک سے باہر آباد ہیں۔لاس اینجلس کے یہودی سفارت کار’’ڈینے گیبٹ(anny Gadot) نے بتایا ہے کہ اس وقت چھ سے ساڑھے سات لاکھ کی تعداد میں اسرائیلی یہودی یہاں پر مقیم ہیں۔ یہ اعداد و شمارتو حکومت یا سرکاری اداروں کے فراہم کردہ ہیں، اصل تعداد اس سے کتنی زیادہ ہوگی اس کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتاہے ۔

 

اسرائیل کے ادارہ شماریات ( Israel Central Bureau of Statistics ) کے مطابق 1990ء اور 2005ء کے درمیان اسرائیل سے ترک وطن کرنے والے شہریوں کی اوسط تعداد چودہ ہزار سالانہ ہے ۔ یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں اور حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے۔


2009ء کے اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق اسرائیل میں شہریت حاصل کرنے والوں کی تعد اد بہت کم ہے اوراس کے مقابلے میں وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل سے نقل مکانی کرنے والوں کی صحیح تعداد کا تعین بے حد مشکل امر ہے، متعدد اسرائیلی دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کر کے تو واپس آجاتے ہیں اورپھر آتے جاتے رہتے ہیں اور اسرائیلی پولیس کے لیے ان کا ریکارڈ رکھنا ناممکن ہو جاتاہے ۔


ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل پندرہ فیصد یہودی آبادی اسرائیل میں مقیم ہیں، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کی ریاست  85% یہودیوں کی عملی حمایت سے محروم ہے، جبکہ تصویر کا دوسرارخ یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کے دروازے بلاامتیاز رنگ و زبان و ثقافت کل دنیا کے کل یہودیوں کے لیے غیرمشروط طورپرکھلے ہیں۔ اسرائیل کے ٹی وی چینل ٹونے اپنی نشریات کے دوران دکھایا کہ ان کے نمائندے نے ایک کینیڈین یہودی سے پوچھا کہ تم اسرائیل کیوں چھوڑ آئے ہوتواس نے کہا کہ یہاں کینیڈاکی زندگی بہت پرسکون ہے۔ ایک اسرائیلی اخبارکے مطابق سابق روسی ریاستوں کے بے شمار یہودی اپنے سابقہ ملکوں میں واپس سدھار چکے ہیں ۔


ہولوکاسٹ کے بعد قریب تھا کہ یہودیوں کی نسل ہی کرہ ارض سے نابود ہوجاتی لیکن چونکہ ناشکری، بدعہدی اور ناحق قتل انبیاءعلیھم السلام کی عبرت کا یہ نشان تا قیامت باقی رہنا ہے اس لیے مشیت ایزدی نے ایڈولف ہٹلرکے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس نے چند یہودیوں کو زندہ رہنے دیا اور ان کی نسل باقی رکھنے کے لیے ایک عارضی ریاست بھی قدرت خداوندی نے دے دی۔ بیساکھیوں کے سہارے یہ ریاست اب بڑی سرعت سے اپنے انجام بدتک پہنچنے والی ہے اور غزہ کی حالیہ کی بربادی کے بعد تو نقیب قدرت نے اس ریاست کے عدم کا بگل گویا بجادیا ہے۔جس رفتار سے یہودی اسرائیل کی ریاست سے نقل مکانی کررہے ہیں قریب ہے کہ غزہ کے مسلمان پیدل چل کرہی اس ریاست کی غصب کردہ زمین پر قبضہ کر لیں۔


اس حقیقت کو محض خوش فہمی نہ سمجھاجائے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ جنوبی اسرائیل ریاست کے وہ حصے جو غزہ کے جوار میں واقع ہیں سات سے چالیس کلومیٹر تک یہودیوی آبادیوں سے خالی ہو چکے ہیں اور وہاں سے بھاگ جانے یہودیوں کی تعداد کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ تقریباَ دولاکھ یہودی بچے آج کل تعلیم سے محروم گھروں میں بیٹھے ہیں اورغزہ کے نہتے مسلمانوں کے خوف نے انہیں اپنے ہی ملک میں بے گھرکررکھاہے۔ اسرائیل کی یہ بہت بڑی آبادی اسرائیلی جارح افواج کی حالیہ مہم جوئی کے بعد غزہ کے مسلمانوں کے جواب کی منتظر رہے گی ، امن کی ضمانت کے بعد یہ لوگ اسرائیل کے جنوب میں اپنے مکانات میں منتقل ہوپائیں گی۔ ﷲ تعالی نے جس قوم پر ذلت و مسکنت مسلط کررکھی ہے ،عرب کے شیوخ اور مسلمان ممالک کے جرنیل انہیں کتنی ہی عزت و احترام سے نواز لیں، امت مسلمہ پھر بھی تائید ایزدی سے اس قوم پرخدائی فیصلہ مسلط کر کے ہی رہے گی ۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬