ڈاکٹر ساجد خاکوانی
زبردستی تبدیلی مذہب کا یہ اہتمام ’’وشواہندوپرشاد‘‘ نامی ہندو انتہا پسند تنظیم کی ضلعی قیادت نے ’’ کانی لناچور‘‘ نامی ایک مقامی مندرمیں اتوار کے روزمنعقد کیا۔ اسی طرح آگرہ میں ایک اور ہندو انتہا پسند تنظیم ’’راشٹریہ سوام سیوک سنگRSS‘‘ کے تحت گزشتہ ہفتے ایک سو مسلمانوں کو زبردستی ہندو دھرم میں داخل کیا گیا۔ بھارتی گجرات میں ’’وشواہندوپرشاد‘‘ کے سیکریٹری ’’رن شود بھروار‘‘ کا کہنا ہے کہ گجرات میں ہر سال پچیس سے تیس ہزار مسلمان ہندو دھرم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ گجرات میں مسلم کش فسادات کے حقائق صاف طور پر بتاتے ہیں کہ اتنی تعداد میں مسلمان خود سے ہندو بن جاتے ہیں یا زبردستی بنادئے جاتے ہیں۔
یہ تو ایسی خبریں ہیں جو کسی بھی طرح سے باہر نکل آئیں اور دنیا کو خبرہو گئی، فی الاصل یہ سلسلہ کب سے جاری ہوگا اور کتنے ہی افراد پر زبردستی کی گئی ہوگی، اس کا ادراک بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی مشاہدہ ہو کہ جب ذمہ داران سے چارہ گری کی درخواست کی گئی تو سیکولرازم کے ان نمائندوں نے بات کو یوں موڑ دیا کہ ان خاندانوں کو اصل میں ہندومت میں واپس لایا گیا ہے ۔’’وشواہندوپرشاد‘‘ کے جنرل سکریٹری وی موہنان نے اخباری نمائندوں کے سامنے یہ شاخصانہ پھوڑا کہ مذکورہ افراد تو ہندو دھرم میں آنا چاہتے تھے اور ہم نے تو ان کی مدد کی ہے۔ دیدہ دلیری سے حقائق کو جھٹلانا تو کوئی سیکولرازم کے ان کارپرداروں سے سیکھے ۔
’’وشواہندوپریشد‘‘ کے ایک اور بزرگ راہنما ’’پراوین توگادیا‘‘ نے پریس کے سامنے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہندؤں کو بھی زبردستی مسلمان اور عیسائی بنایا گیاتھا، انہوں نے موجودہ زبردستی ہندو بنانے کی مہم کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس تحریک کانام ’’گھرواپسی‘‘ پروگرام ہے ۔ شدت پسند بزرگ راہنمانے اس زبردستی کی مہم پر کسی طرح کی شرمندگی یا معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی بجائے کھلی ڈھٹائی سے کام لیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ عیسائی قبائل اپنے مذہب کے باعث مسیحی رفاہی اداروں سے ہرطرح کی معاونت حاصل کرتے تھے جبکہ ہندو قبائل اس طرح کی مراعات سے محروم رہتے تھے ۔
بزرگ ہندو راہنماکی اس بات سے ان کے عزائم کھل کر سامنے آتے ہیں کہ’’ سیکولر‘‘ریاست میں ہندو اکثریت سے غیر ہندو اقلیتوں کی خوشحالی برداشت نہیں ہو پاتی، یہ اصل حقیت ہے سیکولرازم اور برہمن راج کی۔
’’وشواہندو پریشد‘‘ اور اس کے انتہا پسند ہندو راہنما محض سیاسی و مذہبی بنیادوں پر ہی اس مہم کو نہیں چلا رہے بلکہ حکومتی مشینری اور ریاستی ادارے بھی ان کے ساتھ اس متعصبانہ مہم میں برابرکے شریک ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ’’پراوین توگڑیا‘‘ نے دو ہیلپ لائن نمبروں کا بھی اعلان کیا ہے جو خالصتا ہندو مذہب کی اشاعت کے لیے کام کریں گے اور ہندوؤں کے جملہ مسائل کا ان نمبروں پر حل بھی پیش کیا جائے گا۔
یہ نمبر تمام تر مدیہ پردیش کے علاقوں کے لیے اپنی خدمات پیش کریں گی۔ ایک سیکولر ریاست میں صرف ہندومقاصد کے لیے اور صرف ہندؤں کی تعلیم، صحت، قانونی معاونت، ہندوتہذیب اور دیگرہندومسائل کے لیے اور ہندومذہب کی ترویج و اشاعت کے لیے ریاستی کل پرزوں کا استعمال سیکولرازم کا ننگ انسانیت کردارہے۔
’’پراوین توگڑیا‘‘ سے جب یوپی کے مسلمان وزیر جناب اعظم خان کے بارے میں سوال کیا گیا جنہوں نے اس مہم کی مخالفت کی تھی توانہوں نے جواب دیا کہ اعظم خان دنیا کو پاگل بنارہے ہیں اور وہ اعظم خان کے بارے میں بات کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتیں۔ جبکہ اعظم خان اس وقت وزیر کی حیثیت سے ریاست کے سرکاری منصب پر فائز ہیں۔ سیکولر بھارت کی غیرہندو اکثریت پر اتنا سب کچھ گزرجانے کے بعد اب حکمران سوچ رہے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی قانون سازی ہونی چاہئے۔
وزیرخارجہ سشماسوراج نے جمعرات 25 دسمبرکو بھوپال میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرزبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنادیا جائے تو’’گھر واپسی‘‘ جیسے پروگرامز کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ سیکولر ریاست کی قیادت آج جن مسائل کے بارے میں ابھی سوچ رہے ہیں کہ وحی الھی پر مبنی دین اسلام نے آج سے صدیوں پہلے اس مسئلے پر قابل عمل قانون سازی مکمل بھی کر لی ہے۔
مختلف ذرائع سے حاصل ہونی والی معلومات کے مطابق سیکولر بھارت میں برہن راج کی ناک کے نیچے ’’راشٹریہ سوام سیوک سنگRSS‘‘ کی اعل ترین قیادت نے ناگ پورمیں تا نومبر 0142 ایک اہم اجلاس منعقد کیا تھا،اس اجلاس میں موہن بھگوت، سرکاریہ بھیجائی جوشی اور کرشنہ گوپال جیسے مرکزی راہنماؤں نے بھی شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں مکنڈ پرشیکر کی قیادت میں اٹھاون پرچارکر(مبلغین) کا ایک موثرگروہ تیارکیا گیا جسے زبردستی تبدیلی مذہب کا منصوبہ سونپا گیا۔ اس منصوبے کا نام ’’دھرم جاگران مانک‘‘رکھا گیا جس کا مطلب تفہیم مذہب ہے ۔
معلومات کے مطابق کسی ایک مہم کے لیے اتنی بڑی تعداد میں افراد کی تعیناتی’’راشٹریہ سوام سیوک سنگRSS‘‘ کی تاریخ میں پہلی دفعہ عمل میں لائی گئی ہے۔ منصوبے کے مطابق اسی ضلع میں مزید ایک سو پچاس گھرانوں کو زبردستی ہندودھرم میں داخل کیا جائے گا جبکہ اگلے اگست (0152) تک مزید پچاس ہزار افراد کے ساتھ اسی طرح کی زبردستی کا ہدف بھی مقرر کیاگیاہے۔
چنانچہ جہاں جہاں زبردستی تبدیلی مذہب کی کاروائی بڑے پیمانے پر ہوچکی تو خبروں میں آگیا اور جہاں کہیں درون خانہ سازشیں تیارہورہی ہیں وہاں کے بارے میں ابھی کسی کو خبر نہیں۔علی گڑھ میں بھی ایک ایسی کاروائی ہونا تھی لیکن وہاں کی مقامی پولیس نے ابھی اس کی اجازت نہیں دی۔ نچلی ذات کے لوگوں اور ملیجھ قبائل کے کمشن کے سابقہ چئرمین ’’بزے شونکرشاستی‘‘ نے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی ’’گھرواپسی‘‘ مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مہم کا یہ جواز پیش کیاجاتا ہے کہ صدیوں پہلے نیچ ذات والوں نے عزت کی تلاش میں ہندو دھرم چھوڑا تھا اور اب انہیں کہاجارہا ہے کہ تم ہندو دھرم قبول کرلو تمہیں دوبارہ عزت دے دی جائے گی،
ان کا کہنا تھا کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کوعزت کی لالچ میں ہندو دھرم میں داخل کیا جارہا ہے تو کیا جو پہلے سے ہندو دھرم کے پیروکار ہیں اور ابھی تک نیچ اور ملیجھ ہیں، کیا ان کا کچھ حق نہیں کہ انہیں عزت دی جائی؟؟؟ لیکن ہندؤں کے مقتدرطبقوں نے ان کا یہ موقت سختی سے مسترد کر دیاہے۔ نچلی ذات کے لوگوں اور ملیجھ قبائل کے کمشن کے سابقہ چئرمین ’’بزے شونکرشاستی‘‘ نے سینکڑوں کانفرنسوں اور سیمینارز میں یہ بات اجاگر کی ہے کہ آخر نچلی ذات کے ہندؤں کا کیا قصور ہے کہ ان پر سیاسی و معاشرتی عزت افزائی کے دورازے مطلقا بند ہیں اورنچلی ذات کے نوجوان محض اپنا مذہب بچانے کے لیے اعلی تعلیم کے باوجود نچلے درجے کی نوکریاں کرنے پر مجبورہیں۔ سیکولربھارت کا یہ المیہ ہے کہ ہندو ہونے کے ناطے ویسے ہی انسانیت کی تذلیل ان کے معاشرتی نظام کا حصہ تھی جبکہ رہی سہی کسرسیکولرازم نے پوری کر دی اور اب اس ملک میں انسانیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
سیکولربھارت کے یہ حالات دیکھ کر اگر اب بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں جو قیام پاکستان کے جواز کو غلط سمجھتے ہیں توان کے بارے میں یہ قلم کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے۔ بس جنہیں چمکتے دن کی روشنی میں سورج کی حقیقت سے انکار ہے تو ایسے اندھے، گونگے اور بہرے چمگادڑوں کے لیے کسی طرح کی روشنی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان ناگزیر تھا بلکہ ناگزیر ہے اور اس زمین کے سینے پرہمیشہ ناگزیر رہے گا ۔
بھارت کا تجربہ پورے جنوبی ایشیاء کے لیے ایک سخت ترین آزمائش کا تجربہ ثابت ہوا ہے، مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود نہ ہوتا تو برہمن راج کو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے سیکولرازم کے نعرے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی اور یہ طبقہ دوسروں کوحق زندگی سے بھی کلیۃ محروم رکھتا جیسا کہ ہندو دھرم کی کتب میں تحریر ہے جہاں تمام حقوق، تمام مراعات اور رعایات صرف برہمن کے لیے ہی مخصوص و محدود ہیں۔ دنیا میں تاشرق و غرب جیسے جیسے سیکولرازم کے پردہ ہائے کذب و نفاق اٹھتے چلے جارہے ہیں انسانیت دن بدن اور جوق در جوق آفاقی و الہامی حقیقتوں کی طرف رجوع کرتی چلی جارہی ہے۔
سیکولرازم کا استبداد اور برہمن کا ڈھونگ ڈرامہ اب اپنے انجام کو پہنچاچاہتے ہیں، کچھ بعید نہیں اسی بھارت کے کلمہ گواور نورتوحید کے امانت دارایک بار پھرانگڑائی لیں کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ آج انسانیت بدامنی و کساد بازاری کے جس مقام پر آن پہنچی ہے صرف حاملین قرآن ہی یہاں سے نجات کے ضامن ہیں اور امت مسلمہ کا صرف فرض ہی نہیں اس پر انسانیت کا یہ قرض بھی ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے اس کا ہاتھ تھام لے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے ۔