14 January 2015 - 17:04
News ID: 7689
فونت
پیرس میں جمع ہونے والے عالمی راہنما؛
فرانس میں بارہ افراد کے قتل کے خلاف پیرس میں بہت بڑی ریلی نکالی گئی اور دنیا بھر کے ساٹھ سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت نے اس ریلی کی قیادت کی۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ یہ عالمی قائدین ’’انسانیت ‘‘کے لیے بھی کبھی جمع ہوپاتے اور پوری دنیا میں تاریخی انسانی اقدار کے خلاف جو طوفان بدتمیزی اور اودھم مچاہے اس کو روکنے کی کوئی سبیل کرپاتے ۔
پيرس ميں عالمي راہنماوں کا اجتماع


ڈاکٹر ساجد خاکوانی


اس وقت شرق تاغرب کل عالم انسانیت ظلم و جبرکے گھٹاٹوپ اندھیروں میں کسمپرسی اور خوف و دہشت زدگی کی زندگی گزارنے پر مجبورہے۔ ایشیا اورافریقہ کے عوام تو ویسے ہی پست ترین معیارزندگی کے حامل ہیں جب کہ یورپ جیسی جنت ارضی میں بھی خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کے لوگ کس کس طرح کے ذہنی دباؤ کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ عالمی قیادت کبھی تویہ بھی سوچتی کہ محض پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کو ہی پوراکرنا انسانیت کی بقاکے لیے کافی نہیں ہیں،’’انسانیت‘‘ کے تقاضے کچھ اس سے بالا تر مزید بھی ہیں۔ اپنے باشندوں کے قتل پر غم و غصے کا اظہار یا اپنی مملکت اور اپنے جغرافیائی خطے کے ہی امن و دفاع کے بارے میں فکر مند رہنا ہی تو عالمی راہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے ۔


’’انسانیت‘‘کی فکر اپنے خطے سے باہر نکل بھی دامن گیر ہونی چاہیے کہ دنیاکے دیگرعلاقوں میں بھی ’’انسان‘‘ ہی بستے ہیں۔ پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ چینخ چینخ کراس جمع ہونے والی قیادت کو’’ عالمی راہنما‘‘ ہونے کا طعنہ دیتے چلے جارہے ہیں لیکن یہ کیسے’’عالمی راہنما‘‘ ہیں جن کی فکرمندی اپنی قوم یا اپنے ملک سے باہر نکل ہی نہیں پاتی۔


جن ملکوں کے سربراہ فرانس میں ہونے والے اس مظاہرے کی قیادت میں موجود تھے ان میں سے بیشتر بڑے بڑے ملکوں کے مالیاتی ادارے پوری دنیا سے انسانوں کی گردنوں پرسود کی لعنت کو مسلط کرکے توان کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کی فکر میں غلطاں ہوئے چلے جارہے ہیں۔ سال میں کئی کئی مرتبہ ان اداروں کے سربراہ سرجوڑ جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور خوب غوروفکر کرتے ہیں کہ دنیا بھرسے کس کس طرح دولت کو کھینچ کھینچ کر اپنے ملکوں میں لائی جائے، کہیں تو آلودگی کے نام پر دوسروں کو مشورے دیتے ہیں کہ کارخانے مت لگاؤ تاکہ انہیں کے ملکوں کی ساختہ اشیاء فروخت ہوں اور دوسری اقوام ہمیشہ انہیں کے دست نگر رہیں اور کہیں ’’چائلڈ لیبر‘‘ کے نام پر دوسرے ملکوں کے بچوں سے خوب خوب پیار بگھارتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے اور انہیں محنت و مشقت سے دور رہنا چاہیے تاکہ بچوں کے ذریعے سے جو سستی لیبر میسر آتی ہے اور اس سستی لیبر کے باعث دوسرے ملکوں کے کارخانوں میں سستی اشیا بن پاتی ہیں، وہ نہ بن پائیں اور معاشی جنگ میں ’’عالمی راہنماؤں‘‘ کی معیشیت جیت جائے۔


کبھی ’’حقوق نسواں‘‘کے نام پر پرسکون معاشروں میں خاندانی نظام کے درپے ہوجاتے ہیں تو کہیں جمہوریت کے عنوان سے قوموں میں غداروں کی تلاش شروع کر دی جاتی ہے، معاشی جنگ کے ان ہتھیاروں سے تیسری دنیا کی قبا چھلنی چھلنی ہو چکی ہے لیکن ابھی بھی ’’عالمی قیادت‘‘ کے پروردہ عالمی ساہوکاروں کی حرص و ہوس کے پیمانے لبریزنہیں ہوئی۔ کیا بارہ افراد کے قتل کے خلاف پیرس میں اکٹھے ہونے والے ’’عالمی راہنما‘‘ کبھی انسانیت کے اس درد کو بانٹنے کے لیے بھی اکٹھے ہو سکیں گی؟


پیرس میں جمع ہونے والے ’’عالمی راہنماؤں‘‘کے بڑے بڑے ملکوں کی خفیہ اداروں نے اس وقت دنیا میں قتل وغارت گری کا بازارگرم کررکھا ہے اس کے نتیجے میں آج دریاؤں میں پانی کی بجائے انسانی خون بہتاچلاجارہا ہے۔ صہیونی انگلیوں پر ناچنے والے ان خفیہ ادروں نے بڑی چابکدستی سے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ میں رکنے والی خون کی ہولی کو ایشیا اورافریقہ میں منتقل کردیا۔ ایک زمانے تک ان ملکوں کے خفیہ اداروں نے سرد جنگ کے نام پراقتدارکی کھینچا تانی سے دیگر ریاستوں کو اندر سے کھوکھلا کیا، دنیابھرمیں اسلحے کی دوڑ شروع کی، خود آتشیں ہتھیاروں کے ڈھیرکے ڈھیرلگائے اور سیٹی بجاکر ملکوں کولڑایا اور امن عالم کے عنوان سے جدیدترین اور تباہ کن ہتھیاروں کی منڈیاں لگائیں۔


اپنے ملکی مفادات کے لیے دوسرے ملکوں میں دھماکے کرانا اور ان دھماکوں میں بہنے والے انسانی خون کی قیمت سے سیاسی و معاشی مفادات حاصل کرنا ان اداروں کی ریت بنتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کی کسی ایک فرد کو راستے سے ہٹانے کے لیے پورے کے پورے ہوائی جہاز کو نشانہ بناکر معصوم شہریوں اور عازم سفر مسافروں کوفضامیں ہی خون میں لت پت سمندرکی بے رحم موجوں کے سپرد کر دیاجاتا۔ ان خفیہ اداروں کی باہمی کشمکش سے اب تیسری دنیا کے ملکوں کی حکومتیں بھی خوف کھانے لگی ہیں اور خفیہ اداروں سے فارغ ہونے والے اہل کاروں نے اپنی خود نوشت میں ایسے ایسے خوفناک راز فاش کیے ہیں الامان والحفیظ ۔ پیرس میں مظاہرہ کرنے والے ’’عالمی راہنما‘‘ کبھی اپنے ملکوں کے ان خفیہ اداروں سے انسانیت کو بچانے کے لیے بھی اکٹھے ہو سکیں گی؟


پیرس میں بارہ افرادکے قتل پرمظاہرہ کرنے والے لاکھوں انسانوں کی قیادت کرنے والے ’’عالمی راہنماؤں‘‘میں سے کتنوں کے ہی ملکوں نے تعلیم کو ایک تجارتی معاملہ بنا لیا ہے اور پوری دنیا سے الحاق کے نام پر بڑی بڑی رقومات بٹورنے والے ان ملکوں کے تعلیمی ادارے کس کس طرح سے محض اپنے علاقائی و تہذیبی تفوق کی بنیاد پرتعلیمی اسناد جیسی قیمتی متاع کوچند بے حقیقت سکوں کے عوض فروخت کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا یہ انسانی اقدار کی تضحیک نہیں ہے کہ استاد اور شاگرد کے مقدس تعلق کوکاروباری اور تجارتی تعلق میں تبدیل کر دیا جائے ؟ اور تعلیم کے نام پر خدا ناآشنائی کو عام کرنا اور مخلوط تعلیم کے رواج سے نوجوانوں کو اخلاق باختہ کرنا کہاں کی انسانیت ہی؟ تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلا کردار جو ﷲ تعالی نے اپنے لیے پسند کیا وہ استاد کا کردارتھا جب کہ پیرس میں مظاہرہ کرنے والے متعدد ملکوں کے سربراہان اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے اس مقدس شیوہ تعلیم کے ساتھ جو بدترین سلوک کیا ہے اس سے انسانیت کی کل تاریخ خالی ہے۔


دوسرے ملکوں پرتعلیم کے نام پر اپنی تہذیب مسلط کرنا اور انہیں ان کے مقامی شعائرسے بدظن کر کے اپنا ذہنی غلام بنا لینا بدترین قسم کی علمی خیانت ہے۔ کہانی اس سے بھی آگے بڑھتی ہے اور پوری دنیا میں اگر کہیں مقابلۃ مذہب، تہذیب، تمدن یامقامی روایات کی تعلیم کے ادارے بغیر کسی معاوضے کے اپنی نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں تو ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت انہیں ختم کرانا بدنیتی کی انتہا ہے۔


اور صرف تعلیم ہی نہیں خوراک سے لے کر علاج تک انسانی مجبوری کے کل عوامل جن سے حیات انسانی کی بالیدگی یا نسل انسانی کی بقا منسلک ہے اسے کاروبار تجارت کا درجہ دے کر انسانوں پر ظلم عظیم کیا گیا ہے۔ کیا پیرس میں ساٹھ سے زائد ملکوں کے راہنماکبھی انسانیت کے ان غموں کے مداواکے لیے بھی اکٹھے ہو سکیں گے اور ان کا بھی کوئی حل تجویز کر سکیں گے یا ان حالات کے ذمہ داران کے خلاف بھی دائرہ تنگ کر سکیں گی؟


آگ کی آنکھیں نہیں ہوتیں، جب پھیلتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ جس نے میرا آغاز کیا تھا میں اسے کچھ نقصان نہ پہنچاؤں۔ سیکولرازم نے دنیا بھر میں جس خود غرضی، شقاوت اور قتل و غارت گری کی آگ لگائی ہے اب وہ آگ خود اس کے اپنے گھرکو جلایا چاہتی ہے۔ نیٹوکی فوجیں پوری دنیا میں دندناتی پھرتی ہیں، باراتوں اور جنازوں پر اورشہری آبادیوں پر بمباری کرنے والی لاکھوں افراد کی قاتل ان افواج کے ملکوں کی قیادت کواب یہ بات سوچنی چاہیے کہ صرف اپنے باشندوں کے لیے نہیں باقی دنیا کے انسانوں کو بھی اپنے ظلم سے بچانے کے لیے اکٹھے ہوں اور صرف اپنے ملکوں اور صرف اپنے جغرافیائی خطوں سے ہی نہیں باقی دنیاؤں سے بھی ’’انسانیت‘‘ کے تعلق کو قائم کرنے کے لیے جمع ہوں۔


اقوام متحدہ ،عالمی عدالت انصاف اور ان جیسے دیگر بین الاقوامی اداروں میں بھی بیٹھ کر اگر صرف اپنے مفادات کا ہے، تحفظ کرنا ہے تو پھردنیا کو بہت دیرتک بے وقوف بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ تین سوسالوں سے زیادہ عرصہ تک انسانی اجتماعی اداروں سے مذہب کو بے دخل کرنے والا سیکولرازم آج تاریخ کی دہلیز پر اپنے ننگ انسانیت کارناموں کے باعث تن تنہا کھڑا اپنی بے بسی کا رونا رو رہا ہے۔


ان عالمی راہنماؤں کا احتجاج خود اپنی ناکامی کا اعتراف ہے ، دنیا بھرکے طاقتورترین افراد کا سڑکوں پر نکل کرعوام کے ساتھ پیدل چلناچہ معنی دارد؟ وہ لوگ جن کے دستخطوں سے قوموں کی تقدیرکا تعین ہوتا ہے اور جن کے فیصلے تاریخ کا دھارا موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں آج کیا وہ اتنے بے بس ہو چکے ہیں عام عوام کے ساتھ شاہراہوں پرنعرے لگارہے ہیں؟ آخروہ اپنا احتجاج کسے دکھانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ سیکولرازم کو پس پشت ڈال کر خدائے واحد کی قدرت کاملہ کو اپنے دل سے مان چکے ہیں؟ کیونکہ اس وقت زمین کے سینے پر ان سے برتر قوت تو رب ذولجلال کی ہی ہے۔ وہ مانیں یا نہ مانیں حقیقت وہی ہے جس کی تعلیم کل انبیاء علیھم السلام نے دی ہے انسانیت کی بھلائی صرف اور صرف آفاقی صحیفوں کے عطاکردہ نظام میں ہی مضمرہے ۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬