رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے اپنے تفسیر قران کریم کے درس میں جو مسجد آعظم قم میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ کی شرکت میں منعقد ہوا سوره مبارکہ زمر کی آخری آیات کی تفسیر کی اور کہا: قیامت عظیم واقعہ ہے ، جو فقط عمل کے میدان میں ہی نہیں بلکہ علم کے میدان میں بھی عظیم ہے ، رسول اسلام(ص) سے قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا جیسے کہ رسول اسلام(ص) خود اس سے آگاہ ہوں ۔
قران کریم کے مشھور استاد نے مزید کہا: قیامت کے وقت زمین و آسمان کا چہرہ بدل جائے گا، آسمان ایک نجومی اور مادی تسلسل ہے جسے علم کی بنیادوں سے سمجھا جاسکتا ہے ، مگر اس کے علاوہ ایک غیبی آسمان بھی ہے ، جس کے سلسلہ میں فرمایا کہ آسمان کے دروازے کفار کے لئے بند ہیں، تو یہ آسمان جو کفار کی آمد و رفت کا میدان ہے کون آسمان ہے اور کون آسمان ہے جس کے دروازہ کفار کے نہیں کھلے ہیں، یہ وہی آسمان ہے جس جگہ ہمارا رزق ہے ، وہ آسمان جو ہماری دعاوں کی قبولی کا مرکز ہے ، یہ آسمان قیامت کے دن جس کے نیچے اوپر ہونے کا تذکر ہے وہ ظاھری اور باطنی آسمان دونوں کو شامل ہے ۔
آیت الله جوادی آملی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ مادیات کا بدلنا آسان نہیں ہے کہا: روایات میں آیا ہے کہ یہ زمین ایک ایسی زمین میں بدل جائے جس میں گناہ نہ ہوا ہوگا ، اس طرح کی علمی باتوں کی تحقیق آسان کام نہیں ہے ، روایت میں موجود ہے کہ لوگوں کو اس طرح محشور کیا جائے کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ فلاں آدمی ہے ، حتی اگر حیوان کے شکل میں ہوں تو بھی انہیں پہچان لیا جائے گا اور لوگ کہیں گے کہ یہ فلان ہے ، یہ لوگ فورا قبر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجائیں گے ۔
انہوں نے آیت «وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُونَ» کی جانب اشارہ کیا اور کہا: قیامت میں پہونچنے والا ایک گروہ نیند کی حالت میں ہوگا ایسی بناء پر وہ کہیں گے کہ ہم ایک دن یا آدھا دن برزخ میں تھے ، اور کچھ وہ ہیں جو برزخ میں بیداری کی حالت میں آئیں گے، قران میں ہے کہ ہم قیامت میں بہت سارے لوگوں کو حاضر کریں گے ، مگر وہ لوگ جو بیدار ہیں وہ مستثنی ہیں اور مخلصین بیدار و آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ کہاں جا رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں انہیں دنیا سے قیامت میں لے جایا جا رہا ہے ، روایات میں موجود ہے کہ بعض لوگ جانتے ہیں کہ کون ان کی تشیع کے لئے آئے گا، تشیع کوئی اسان کام نہیں ہے ، مناسب نہیں ہے کہ انسان تشیع کی حالت میں باتیں کریں حتی تشیع میں سلام کرنا مکروہ ہے وہ بھی اس لئے کہ تشیع عظیم ہے ۔