رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رھبرمعظم انقلاب اسلامی ایران نے مختلف مناسبتوں اور تقریریوں میں جوانوں کی شادی کی مشکلات کی جانب اشارہ کیا ہے ، آپ معتقد ہیں کہ اس سلسلہ میں «ثقافتی» روکاوٹوں اور اڑچنوں کی مقدار سب سے زیادہ ہے ، حکمراں طبقہ ، ذمہ دار افراد اور گھرانے اس کے خاتمہ میں کوشش کریں ، آپ نے امسال ماہ مبارک رمضان میں طالب علموں اور طالبات سے ہونے والی ملاقات میں فرمایا: « شادی کے سلسلہ میں بعض تصورات اور غلط رسمیں موجود ہیں جو دست و پا گیر ہیں ، آپ جوان ہیں ، طلب کار ہیں ، پرنشاط ہیں ، بہت ساری رسموں اور عادتوں کے خاتمہ کے لئے تجاویز پیش کرنے والے ہیں ، میرے لحاظ سے شادی کے سلسلہ میں موجود غلط سنتوں کا خاتمہ بھی آپ ہی کریں » ۔
اس تحریر میں مندرج مطالب رهبر انقلاب اسلامی ایران حضرت ایت العظمی سید علی خامنہ ای کے بیانات کا اقتباس ہیں جو شادی کی آٹھ غلط رسموں کی جانب اشارہ کرتے ہیں ان میں سے چار کا ہم اس پہلی قسط میں تذکرہ کررہے ہیں اور بقیہ چار کا بعد کی قسط میں تذکرہ ہوگا ۔
1. مہر کی رقم کا زیادہ ہونا
اپنی اہلیہ کے لئے مہر کی رقم زیادہ رکھنا معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہے ، اس کے سبب بہت ساری لڑکیاں گھروں میں ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں اور بہت سارے لڑے کنوارے ہی رہ جاتے ہیں ۔ جب یہ چیزیں معاشرے میں رائج ہوجائیں ، معاشرہ کا حصہ بن اور رسم و رواج میں تبدیل ہوجائیں یعنی «مَهرُ السّنّة» مہر مرسل آعظم صلی الله علیه و آله کے بجائے مہر جاہلیت رائج ہوجائے تو حالات بھی جاہلیت کے حالات میں بدل جائیں گے ۔
خطبہ عقد 2/ 11/ 1998
زیادہ مہر عصر جاہلیت کی نشانی و یادگار ہے جسے رسول اسلام صلی الله علیه و آله نے منسوخ کردیا ، رسول اسلام صلی الله علیه و آله ایک سرشناس اور مشھور و معروف گھرانے سے متعلق ہیں ، آپ صلی الله علیه و آله قریش کے شناختہ افراد میں سے ہیں ، آپ جو معاشرہ کے لیڈر اور سربراہ ہیں کیا ھرج تھا کہ آپ اپنی بے مثال بیٹی جو دنیا کی بیٹیوں میں سے «مِن الاَوّلینَ و الآخِرین» میں سب سے بہتر ہیں اور خداوند متعال نے انہیں «سیدة النّساء العالمین» کے لقب سے نوازا ہے اور دنیا کے سب سے بہتر نوجوان مولائے متقیان سے شادی کا ارادہ رکھتے ہیں آپ کی مہر کی رقم زیادہ رکھیں ، آپ نے کیوں اتنی کم مہر کی رقم رکھی کہ جسے «مَهرُ السُّنَّة» کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
خطبہ عقد 18/5/1995
مہر کی رقم جس قدر بھی زیادہ ہو وہ فطرت ازدواج سے زیادہ قریب ہے ، کیوں کہ شادی کی طنیت کوئی معاملہ ، خرید و فروش یا اجارہ دہی نہیں ہے بلکہ دو انسانوں کی آپسی حیات کا مقدمہ ہے ، اس کا تعلق مالی مسائل سے نہیں ، شریعت نے مہر کی رقم رکھی تاکہ ایک عنوان رہے مگر سنگین اور اس مقدار ھرگز زیادہ نہ ہو ، معمولی اور اس مقدار میں ہو کہ سبھی انجام دے سکیں ۔
خطبہ عقد 9/8 / 1995
بعض افراد تصور کرتے ہیں زیادہ مہر ازدواجی زندگی میں استحکام اور اس کی تقویت کا سبب ہے کہ جو سراسر غلط اور بہت بڑی بھول ہے ، خدا ناخواستہ اگر میان بیوی نااھل ہوں تو زیادہ مہر کوئی معجزہ نہیں کرسکتا ۔
خطبہ عقد 1 / 8 / 1996
کبھی لڑکی والے زیادہ مہر نہیں رکھنا چاہتے مگر لڑکے والے فخر و مباہات کے لئے زیادہ سے زیادہ مہر رکھنا چاہتے ہیں ، یہ تمام باتیں اسلام سے دوری کی نشانی ہیں ، کوئی بھی زیادہ مہر کے ذریعہ کامیاب نہیں ہوا ، کم مہر رکھنے والے اگر یہ سوچیں کہ ان کی بیٹی کی ازدواجی زندگی خطرہ میں پڑ سکتی ہے تو غلط سوچتے ہیں کیوں کہ اگر شادی محبتوں پر استوار رہے تو بغیر مہر کے بھی مستحکم ہوگی اور اگر خباثتوں اور گندگیوں پر استوار ہو تو سنگین مہر کے ذریعہ بھی نابودی کی کگار پر ہے ۔
خطبہ عقد 24 / 11 / 1996
میں اپنی عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس قدر مہر کی رقم زیادہ نہ رکھیں کیوں کہ یہ جاہلیت کی رسمیں ہیں ، یہ وہ کام ہے جس پر خدا اور اس کا رسول صلیالله علیه وآله ھرگز راضی نہیں ، میں نہیں کہتا ہوں کہ حرام ہے ، نہیں کہتا ہوں کہ شادی باطل ہے مگر سنت رسول اسلام صلیالله علیه وآله اور اپ کی اولاد طاھرین آئمہ اطھار علیهم السلام نیز بزرگان دین کی مرضی کے خلاف ہے ۔
خطبہ عقد 23 / 11 / 1994
2. بھاری جہیز
میرا خیال ہے کہ حضرت زهرا (علیهاالسلام) کا جہیز اس قدر سادہ ہونا، آپ کی جانب سے سادگی کی حدوں کی مراعات کوئی نمایشی چیز یا فارملٹی نہیں تھی بلکہ اس لئے تھی کہ لوگوں میں ایک معیار قائم ہو، لوگ اس کی مراعات کریں تاکہ اس زیادتی کے سبب مشکلات سے روبرو نہ ہوسکیں ۔
خطبہ عقد 9 / 7 / 1998
بعض دلہن کے گھرانے خود کو اذیت و تکلیف میں مبتلاء کرتے ہیں اور زحمت میں ڈالتے ہیں ، اگر پیسہ نہ ہو تو بھی ھزار مشکلات کا سامنا کرکے پیسہ فراھم کرتے ہیں ، اگر پیسہ ہو تو حد سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور وہ بھی اس لئے اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ اور بڑا سے بڑا جہیز دیں سکیں ۔
خطبہ عقد 19 / 3 / 1999
بھاری جہیز کسی بھی لڑکی کی ازدواجی حیات کی کامیابی کی نشانی نہیں ہے اور کسی بھی گھرانے میں چین و سکون و آرامش و اعتماد کے اسباب فراھم نہیں کرتا ، یہ زندگی کے اصولوں میں سے ہے ، زیادہ جہیز زندگی سے باہر اور درد سر اور اسباب زحمت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
خطبہ عقد 8 /12 / 1996
ھرگز قرض لیکر جہیز نہ خریدیں ، ھرگز خود کو زحمت میں نہ ڈالیں ، ھرگز اپنے گھرانے کو زحمت میں نہ ڈالیں ، ھرگز نہ سوچیں کہ اگر آپ کی بیٹی کا جہیز پڑوسی اور خاندان کی بیٹیوں سے کم ہوگا تو اس کی توھین و احساس کمتری کا سبب ہوگا ۔
خطبہ عقد 19 / 6 / 2002
بعض افراد کوشش کرتے ہیں کہ جہیز کے لئے خاندان ، دوست و احباب ، پڑوسیوں اور محلے کو پیچھے چھوڑ جائیں کہ جو غلط کام ہے ، آپ دیکھیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا مناسب ہے اسے انجام دیں ، معمولی زندگی میں دولوگوں پر مشتمل گھرانے کو کن چیزوں کی ضرورت ہے اسے جہیز میں دیں ۔
خطبہ عقد 24 / 10 / 2000
فضول کے اور بیکار سامان، زیادہ روی اور کثرت، بیکار کی چیزیں ، بھاری جہیز اور ھرطرح کی چیزوں کا خریدنا، جہیز میں شامل کرنا اور اسے دینا کیا ضروری ہے ، کہ ایک چیز ہی سہی اپنی بہن سے ، اپنے خاندان کی بیٹیوں سے ، پڑوس کی بیٹیوں سے اور یا کلاس فیلو لڑکیوں سے زیاد رہے ، یہ غلط باتیں خود اپنے لئے اور دیگر انسانوں کے لئے بھی نہایت اذیت ناک اور تکلیف دہ ہیں ، اس کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں اپنے سسرال نہیں پہونچ پاتیں ، بہت سارے لڑکے شادی نہیں کر پاتے اور اس کی بنیاد بھی یہی چیزیں اور یہی مصیبتیں ہے ، اگر شادی آسان ہوتی ، اگر لوگوں نے سختی نہ کی ہوتی ، اگر بعض افراد مہر کی رقم اتنی بڑی نہ رکھتے ، اگر یہ باتیں جاہلانہ انداز کی بیانگر نہ ہوتیں ، ماں باپ اپنے خیال خام میں کہ کہیں ان کی بیٹی کا دل نہ ٹوٹ جائے اتنا بڑا کام نہ کرتے جو بعض گھرانوں کے لئے بہت بڑی مصیبت ابھر کر سامنے آتی ہے ۔
خطبہ عقد 16 / 7 / 1994
کچ لوگ ابتداء ہی سے چھوٹا بڑا ، ضروری اور غیر ضروری ساز و سامان اپنے بیٹی کے لئے جہیز کے عنوان سے مھیا کرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری بیٹی فلاں لڑکی یا فلاں چچا زاد بہن اور یا فلاں سگی یا سوتیلی بہن سے پیچھے رہ جائے ، یہ اچھی بات نہیں ، یہ غلط کام ہے اور اسباب زحمت بھی ہے اور وہ بھی وہ زحمت جس کا خداوند متعال کے نزدیک کوئی اجر نہیں ۔
خطبہ عقد 23 / 11 / 1999
جہیز کو ھرگز بھاری اور بڑا نہ بننے دیں ، لڑکیاں اسے روکیں ، بہوویں بھی اسے روکیں ، ماں باپ اگر چاہیں تو بھی آپ روک دیں ۔
خطبہ عقد 14 / 12 / 1994
دلہنوں کی مائیں جہیز کی فراھمی میں کنٹرول کریں ، بہت زیادہ افراط و اسراف نہ کریں ، نہ کہیں کہ میری بیٹی ہے اس کا دل ٹوٹ جائے گا ، نہیں ایسا نہیں ہے ، بیٹیاں خوش اخلاق اور با ظرف ہیں ، انہیں یہ چیزیں پسند نہیں ، ہم فضول میں ان کے دلوں کو اس طرف راغب کرتے ہیں کہ تمام خوبصورت اور اچھی چیزیں ضرور ان کے لئے فراھم کی جائیں ۔
خطبہ عقد 4 / 2 / 2001
3. حد سے زیادہ تجملات
تجملات ایک معاشرہ کے بری اور نقصان دہ شی ہے ، جو لوگ تجملات کی مخالفت کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس کی لذتوں اور خوشیوں سے نا واقف اور بے اطلاع ہیں ، بلکہ اسے معاشرے کے لئے نقصان دہ جانتے ہیں ، جیسے کوئی دوا یا نقصان دہ خورد و نوش کی چیز ، زیادہ تجملات معاشرہ کے لئے ضرر رساں ہیں ، ایک معمولی اور مرسوم انداز میں نقصان دہ نہیں ہے مگر جب ایک دوسرے سے مقابلہ کا رنگ و روپ دھار لے تو اپنی حدوں سے باہر نکل جائے گا ۔
خطبہ عقد 11 / 7 / 1991
تجملات اور زیادہ روی میں ڈوبے دولہا اور دولہن کی زندگی کیا زیادہ کامیابوں سے ھمکنار ہوتی ہے؟ کون اس کا دعوا کرسکتا ہے ، یہ باتیں بجز اس کے کہ کچھ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو حسرتوں سے روبرو کرے اور ان کی زندگی میں زھر گھول دے کچھ بھی نہیں ، کہ اگر وہ بھی اس طرح کی شادی و بارات کا انتظام نہ کرسکے تو ہمیشہ حسرت و افسوس سے روبرو رہیں گے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ، کیا یہ لڑکی باپ کے گھر ہی میں بیٹھی رہ جائے ، یہ طالب علم یا طالبہ ، یہ کم در آمد ملازم کیا ھمیشہ غیر شادی شدہ رہ جائے کیا یہی مناسب ہے ۔
خطبہ عقد 14 / 12 / 1994