02 November 2015 - 21:31
News ID: 8639
فونت
رسا نیوز ایجنسی - ایک نوجوان تعصبات کے حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کو ایسی سنجیدگی سے بیان کر رہا تھا، جس میں المیے کی کیفیت زیادہ محسوس ہو رہی تھی، پاکستان بننے کے بعد سے ہماری ریاست نے دو قومی نظریئے کو اپنا بیانیہ بنا رکھا ہے، حالانکہ پاکستان بننے کے بعد اس کی ضرورت نہ تھی۔ بیرونی مداخلت کا پاکستان میں ذکر کرتے ہوئے ، ہم انڈیا اور امریکا کی مداخلت کا ذکر کرتے ہیں، لیکن اگر بعض مسلمان ممالک ہمارے ہاں مداخلت کر رہے ہوں تو ہم ان کا نام نہیں لیتے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سعودی عرب اور ایران کا ذکر کیا ،
ثاقب اکبر پاکستان ميں قومي تعصب کے نقصانات

 

تحریر: ثاقب اکبر

 

گذشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک ڈسکشن فورم نے تعصب کے موضوع پر مذاکرے کا اہتمام کیا۔ اس مذاکرے میں سول سوسائٹی کے اہم راہنما، اساتذہ، علماء اور دانشوروں کی ایک قابل ذکر تعداد نے شرکت کی۔ اس میں جوانوں کی اکثریت تھی۔ اس نشست کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ ٹھیٹھ مذہبی فکر رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے روشن فکر افراد اس میں موجود تھے، جنھیں مذہبی زبان میں سیکولر کہا جاتا ہے۔ سب نے ایک چھت کے نیچے تعصب کے بارے میں اپنے نظریات کا اظہار کیا۔ تعصب کے اپنے تئیں مختلف مظاہر کا ذکر کیا۔ مختلف افراد کے نزدیک تعصب کا تصور مختلف تھا، لیکن سب ایک دوسرے کی بات انہماک اور توجہ سے سن رہے تھے اور کوئی جذباتی ردعمل دیکھنے میں نہ آرہا تھا۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جا رہا تھا۔ ایک بات جو کسی ایک فرد کے لئے تعصب کا مظہر تھی، دوسرے کے لئے اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ محفل میں مختلف مسالک ہی کے نمائندے نہ تھے بلکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد مل کر غور و فکر کرنے میں مشغول تھے۔

 

یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا تھا کہ میزبان نے فورم کے قواعد و ضوابط بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں باہمی احترام کے ساتھ بغیر کسی خوف کے نہایت دیانت داری کے ساتھ دل کی بات کریں گے، لیکن یہ بات ہماری آپس میں ہوگی، ہم اسے باہر کسی کے نام سے بیان نہیں کریں گے، جب تک کہ خود بات کرنے والا اس کی اجازت نہ دے۔ اس نظریئے سے سب نے اتفاق کیا اور پھر سب نے اپنے دل کی بات کھل کر کہی۔ ہم بھی چونکہ اس نشست میں حاضر تھے اور اس اتفاق رائے سے اتفاق کرچکے ہیں، اس لئے ذیل میں مختلف احباب کی بات ان کے نام سے نہیں کریں گے۔ تاہم ہماری رائے میں یہ ضروری ہے کہ تعصب کے حوالے سے جو اہم اور قیمتی آراء اہل دانش و بینش کی اس نشست میں سامنے آئیں، انھیں غور و فکر کے لئے عام کیا جائے اور یوں اس مشاورت کا سلسلہ وسیع تر کر لیا جائے۔

 

میزبان جو خود بھی ایک صاحب فکر شخصیت ہیں اور معاشرے میں اعتدال پسندی اور ہم آہنگی کے فروغ کے لئے سرگرم عمل ہیں، نے تعصب کے حوالے سے چند ایسی مثالیں ذکر کیں، جن سے یہ نتیجہ بخوبی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تعصب دراصل انسانی دل و دماغ میں القاء کیا جاتا ہے۔ انھوں نے مثال سے واضح کیا کہ کس طرح گورے اور کالے کے مابین فرق رکھنے والے معاشرے میں ایک سکول ٹیچر نے اپنے طلبہ کے لئے موضوع تعصب تبدیل کر دیا۔ اس نے آنکھوں کی نیلی رنگت اور بھوری رنگت رکھنے والے طلبہ کے مابین تعصب کی ایک قسم کا تجربہ کیا اور پھر بچوں کو آخر کار بتایا کہ ہم گورے اور کالے کے مابین جو تعصب برتتے ہیں، اس کی کوئی عقلی اور حقیقی وجہ نہیں۔ پھر حاضرین میں سے ایک نوجوان شاعر اور دانشور دوست نے تعصب کی بعض دلچسپ مثالیں پیش کیں۔ انھوں نے قائداعظم کی زندگی سے ایک مثال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی تو علماء کا ایک وفد ان سے ملنے کے لئے آیا، ان کے نظریئے اور ان کے کام کی تعریف کی، لیکن آخر میں کہا کہ چونکہ آپ شیعہ ہیں، اس لئے ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ قائداعظم نے کچھ توقف کے بعد کہا کہ پھر گاندھی جی کا ساتھ دے لیں کیونکہ وہ سنی ہیں۔ موصوف نے پاکستان میں مسیحیوں کے بارے میں ہونے والے سلوک کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہمارا رویہ دیسی مسیحیوں اور ولایتی مسیحیوں کے بارے میں مختلف ہوتا ہے۔

 

حاضرین مجلس میں سے ایک قانون دان نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ عموماً ہمارے نقطۂ نظر کی بنیاد علم اور منطق نہیں ہوتا، اگر ہم کوئی رائے اختیار کرنے کے لئے علم اور منطق کا سہارا لیں تو تعصب سے نجات پاسکتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ برداشت ہمارے دین اور کلچر کا حصہ ہے۔ ایک مذہبی شخصیت کا کہنا تھا کہ تعصب کو ہمیشہ مذہب سے جوڑا جاتا ہے۔ ان کی نظر میں یہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے، کیونکہ ہر مکتب فکر کے اہم علماء دوسروں کے بارے میں تعصب نہیں رکھتے بلکہ مل جل کر رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور آپس میں بھی مل جل کر فیصلے کرتے ہیں۔ انھوں نے غیر مذہبی تعصب کی کئی مثالیں پیش کیں۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں بھتہ خوری مذہبی لوگ نہیں کر رہے۔ وہاں اردو سپیکنگ اور پشتو سپیکنگ کے مابین خون ریزی ہوتی ہے۔ انھوں نے بلوچستان میں جاری تحریک کا بھی حوالہ دیا جو مذہبی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں کوئی سوالات اٹھانا چاہتا ہوں تو مجھے اس کا حق ہونا چاہیئے اور اسے تعصب قرار نہیں دیا جانا چاہیئے۔

 

سول سوسائٹی کے ایک راہنما نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تعصب کا شناخت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ فخر کے ساتھ بھی تعصب کا تعلق ہے۔ آپ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ سمجھنا شروع کر دیں تو یہ تعصب ہی کا ایک مظہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ مالی حیثیت میں فرق کی بنیاد پر بھی تعصب پایا جاتا ہے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ تعصب سے انرجی بھی پیدا کی جاسکتی ہے، لیکن پاکستان میں تعصب کی سمت منفی ہوگئی ہے۔ اس لئے یہ معاشرے میں قوت عمل پیدا کرنے کے لئے مثبت کردار ادا نہیں کر رہا۔ انھوں نے کہا کہ منفی تعصب مختلف گروہوں کے مابین نفرت پیدا کرتا ہے۔ نفرت کا یہ عنصر باہمی ربط و ارتباط سے کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب فکر نوجوان نے تعصب کی ایک اور قسم کی طرف متوجہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ سرحدوں کی بنیاد پر بھی دنیا میں تعصب موجود ہے۔ سرحدیں مختلف لوگوں کو ’’ہم‘‘ اور ’’اُن‘‘ میں تقسیم کر دیتی ہیں۔

 

سول سوسائٹی کے ایک نمائندے نے پاکستان میں رائج نصاب میں ایسی چیزوں کی طرف اشارہ کیا، جو خاص طرح کا ذہن بناتی ہیں اور بچوں کو بالآخر تعصب میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ دس سال تک بچہ ایسی چیزیں پڑھ پڑھ کر پختہ ہو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں نصاب کو اس نظر سے دیکھنا چاہیئے کہ اس میں کون سی چیزیں تعصب پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ متنوع امور میں دلچسپی لینے والے سول سوسائٹی کے ایک اور راہنما نے نصاب میں تاریخ پڑھانے سے گریز کو ہدف تنقید بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں نہ فقط تاریخ پڑھانا چاہیئے بلکہ صحیح تاریخ پڑھانا چاہیئے، البتہ جیسے کسی دوائی کے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں، اسی طرح مطالعہ تاریخ کے بھی سائیڈ افیکٹس ہوسکتے ہیں، ہمیں ان کا تدارک کرنا چاہیئے، لیکن صحیح تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بعض تعصبات مثبت بھی ہوتے ہیں اور بعض شناختیں بھی مفید ہوتی ہیں، اس لئے ہمیں تعصب کو مفید اور غیر مفید کے عنوان سے بھی دیکھنا چاہیئے۔

 

ایک نوجوان مذہبی دانشور نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ تعصبات اپنی حدود میں رہیں تو اچھا ہے۔ انھوں نے عالمی طاقتوں کا ذکر کیا، جو کہیں مذہبی تعصب کو استعمال کر لیتی ہیں اور کہیں رنگ و نسل کو۔ ان کے نزدیک گویا دنیا میں تعصب کا فروغ بڑی طاقتوں کی سازشوں سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی تعصب کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 80 کی دھائی سے پہلے کا اور بعد کا پاکستان مختلف ہے۔ ان کی رائے میں 80 کی دھائی سے پہلے کے پاکستان میں مذہبی تعصب کی یہ حالت نہ تھی۔ ایک دوست نے بار دیگر گفتگو میں حصہ لیا۔ وہ پاکستان میں مذہبی تعصب کے مسئلے پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر پاکستان ایک انتہا پسند معاشرہ نہیں۔ ملک کے اندر مختلف قوتوں نے گُل کھلائے ہیں اور اس کے ذمے دار ریاستی ادارے ہیں۔ ایک دانشور خاتون نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ ان کی رائے تھی کہ ہمارے ہاں اساتذہ کی تربیت میں کمی ہے، جس کی وجہ سے وہ کلاس میں بچوں کو سمجھانے کے لئے عملی نمونے پیش نہیں کر پاتے۔

 

ایک نوجوان مذہبی دانشور نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں کے مختلف تعصبات میں حکومتوں کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کوٹہ سسٹم نے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ اسی طرح دیہی اور شہری کی بنیاد پر کوٹہ کی تقسیم نے بھی تعصب کو ہوا دی ہے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون نے بھی اپنی آراء پیش کیں۔ انھوں نے کہا کہ تعصب پر مبنی بہت سی چیزیں اب ہمارے سماج کا حصہ بن چکی ہیں۔ انھیں بالواسطہ موضوع سخن بنانے کے بجائے ہم مثبت چیزوں کو فروغ دیں، تاکہ وہ ان کی جگہ لے سکیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ انسانیت اور وطن دوستی کے افکار کو فروغ دے کر ہم تعصب کا علاج کر سکتے ہیں۔  اس پر ایک ساتھی نے تبصرہ کیا کہ وطن دوستی میں بھی منفی تعصب موجود ہے۔

 

ایک استاد دانشور محفل میں تشریف رکھتے تھے۔ وہ کہنے لگے یہ سوال اہم ہے کہ تعصب پیدا کیسے ہوتا ہے۔ اپنے ملک کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ باہر سے جو کچھ کہا جاتا ہے، ہم اس پر لگ جاتے ہیں۔ باہر والے ہی موضوع تبدیل کر دیتے ہیں تو ہمارا بھی موضوع تبدیل ہو جاتا ہے۔ تعصب کے مظاہر پر بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ عموماً کسی خاص گروہ کی ممبر شپ کی وجہ سے افراد کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعصب نسل در نسل بھی چلتا ہے اور سماجی فضا بھی اس میں حصہ لیتی ہے۔ تعصب کو ابھارنے والے عناصر پر بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک بڑی عمدہ مثال دی۔ انھوں نے کہا کہ کسی گاؤں میں کسی مولوی صاحب کو ایک ہندو دکان دار سے کچھ خریدتے ہوئے قیمت پر اختلاف تھا۔ گاؤں کے عام لوگ اس دکاندار سے مطمئن تھے۔ اس نے لوگوں کو اس دکاندار کے خلاف ابھارنے کے لئے کہا کہ یہ ہندو ہے، نجس ہے، اس سے خریداری نہیں کرنا چاہیئے، سب اس کا بائیکاٹ کریں لیکن لوگوں پر اس کی بات کا اثر نہ ہوا۔ اس نے اگلے جمعہ کے خطبے میں اعلان کیا کہ یہ ہندو دکاندار وہابی بن گیا ہے۔ پھر کیا تھا لوگوں نے اس سے خریداری بند کر دی۔ استاد عزیز نے ایک اور بات کی اور وہ یہ کہ ہمیں اپنے مسائل میں خود کسی نتیجے اور علاج تک پہنچنا چاہیئے، نہ یہ کہ باہر والے لوگ اپنے کسی ایجنڈے کے تحت ہمیں ڈکٹیٹ کریں۔

 

ایک نوجوان تعصبات کے حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کو ایسی سنجیدگی سے بیان کر رہا تھا، جس میں المیے کی کیفیت زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد سے ہماری ریاست نے دو قومی نظریئے کو اپنا بیانیہ بنا رکھا ہے، حالانکہ پاکستان بننے کے بعد اس کی ضرورت نہ تھی۔ بیرونی مداخلت کا پاکستان میں ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم انڈیا اور امریکا کی مداخلت کا ذکر کرتے ہیں، لیکن اگر بعض مسلمان ممالک ہمارے ہاں مداخلت کر رہے ہوں تو ہم ان کا نام نہیں لیتے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سعودی عرب اور ایران کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے پارلیمینٹ کے ذریعے ایک طبقے کو کافر قرار دلوایا تو کیا اب ہم تین چوتھائی اکثریت سے ایک فرقے کے ذریعے کسی دوسرے فرقے کو کافر قرار نہیں دلوا سکتے۔ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ کافر قرار دلوانے کے لئے پارلیمینٹ کا استعمال ٹھیک طرز عمل نہیں۔

 

محفل یہاں تک پہنچی تھی کہ میزبان نے ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں جن علماء اور دانشوروں نے تفردات کا اظہار کیا ہے، انھیں ہم نے معاشرے سے الگ کر دیا ہے۔ مضمون نگار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو زیادہ ہدف تنقید بنایا جاتا ہے، کوئی نئی اور فکر انگیز بات انہی کے ہاں سے ملتی ہے، اگرچہ ان کی بات سے اتفاق نہ بھی کیا جائے۔ میزبان کی رائے تھی کہ ہمیں ایسے دانشوروں اور علماء کی نشاندہی کرنا چاہیئے کہ جن کے ہاں سے کچھ فکر انگیز مواد پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس پر پھر کچھ نام انھوں نے لئے اور کچھ کا حاضرین نے اضافہ کیا۔ مثلاً ڈاکٹر فضل الرحمن، جمال الدین افغانی، مولانا عبیداللہ سندھی، ابوالکلام آزاد، وحید احمد خان، ڈاکٹر خالد مسعود، رشید رضا، علی شریعتی، ڈاکٹر حمید اللہ، مولانا مودودی، مولانا جعفر پھلواروی اور سید حسین نصر وغیرہ۔ بات جاری تھی اور ابھی جاری رہے گی۔ آئندہ صحبت میں کچھ مطالب اور بھی پیش کئے جائیں گے۔ ان شاء اللّٰہ
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬