31 March 2017 - 18:36
News ID: 427222
فونت
امریکی حکومت نے شام کے بحران کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں واضح تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب اس کے بعد بشاراسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کرے گی۔
امریکا

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں امریکا کی مندوب نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ امریکی حکومت شام میں اپنی ترجیحات کو تبدیل کررہی ہے کہاکہ واشنگٹن کو اب شام کے صدر بشار اسدکی حکومت کو گرانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے - اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نیکی ہیلی نے کہا کہ اب ہماری ترجیح بشار اسد کو حکومت سے علحیدہ کرنا نہیں ہے -

ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کی سابقہ حکومت کی طرح بشاراسد کی حکومت کو گرانے پر ہی اپنی قوت اور کوشش صرف نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا واقعی بشار اسد ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں؟ اور کیا ہمارا کام یہی رہ گیا ہے کہ ہم صرف بشار اسد کو ہی گرانے پر اپنی ساری کوششیں مرکوز رکھیں ؟ امریکی مندوب کا کہنا تھا کہ ہماری ترجیحات یہ ہیں کہ کس طرح سے کام کو آگے بڑھایا جائے اور کس شخص کے ساتھ کام کیاجائے تاکہ شام کے عوام کے حالات بدل سکیں -

امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن بھی اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ شام کے عوام ہی بشاراسد کی تقدیر کےبارے میں فیصلہ کریں - انہوں نے انقرہ میں ترک وزیرخارجہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ میں سمجھتاہوں کہ بشار اسد کے بارے میں فیصلہ شام کے عوام کو ہی کرنا چاہئے - امریکی وزیرخارجہ اور اقوام متحدہ میں امریکی مندوب کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اور اوباما انتظامیہ کی پالیسی میں کافی فرق آرہا ہے کیونکہ اوباما نے بارہا کہا تھا کہ بشار اسد کو جانا ہی ہوگا -

شام کی تقدیر کا فیصلہ خود شامی عوام کے ہی ذریعے کئے جانے کے حق کے بارے میں امریکی حکام کے دیر سے آئے اعترفات ایک ایسے وقت آئے ہیں جب گذشتہ چھے برسوں کے دوران شام کے خلاف عرب اور مغربی اتحاد نے شام کے سیاسی نظام کو گرانے کے مقصد سے لاکھوں کی تعداد میں شام کے بے گناہ شہریوں کا خون بہایا ہے - اس عرصے میں مغرب نے امریکا کی قیادت میں شام کے سیاسی اور فوجی حقائق کو نظر میں رکھے بغیر ایک ایسے قانونی صدر کو برطرف کرنے کی ناکام کوشش کی جو عوامی ووٹوں سے حکومت میں آیا تھا اور جس کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے -

ان تمام باتوں کے باوجود شام کے سیاسی اور فوجی حقائق اس بات کا باعث بنے ہیں کہ کم سے کم نئی امریکی انتظامیہ کے حکام اپنی گذشتہ پالیسیوں کی ناکامی کا احساس کریں اور پہلی بار اس بات کا اعتراف کریں کہ بشار اسد کی برطرفی ان کی ترجیح نہیں ہے -

البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چھے سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی اصولی طور پر شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کی توانائی بھی نہیں رکھتے اسی لئے ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی اس ناتوانی کو شام کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی سے تعبیر کریں- /۹۸۸/ ن۹۴۰

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬