تحریر: سید اسد عباس
عوام کے لئے سخت قوانین کے اطلاق اور نفاذ، مخالفین پر شکنجہ کسنے اور اغواء، گرفتاری اور قتل جیسی سخت سزائیں دینے کے علاوہ آل سعود کے اقتدار کا ایک اہم ستون اقتدار میں شراکت کا نظام تھا، جو آل سعود کے اس تیسرے دور اقتدار کی ابتداء سے ہی خاندان میں نافذ العمل تھا۔ اسی شراکت اقتدار کے سبب آل سعود کے سب شہزادے جن کی اس وقت تعداد پندرہ ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے اور جن میں سے طاقتور شہزادوں کی تعداد تقریباً دو ہزار ہے، ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر سعودی عوام پر حکمرانی کر رہے تھے۔ ملک کے اہم مناصب پر یہ شہزادے تعینات تھے۔ بادشاہ کے تعین کا بھی ایک نظام موجود تھا، اسی طرح ولی عہدی کو بھی ایک نظام کے تحت خاندان کے کسی مناسب فرد کو دیا جاتا تھا۔ والی درعیہ اور آل سعود کے موسس سعود جس نے محمد بن وہاب کے ساتھ مل کر سلطنت سعودیہ کی بنیاد رکھی، کے چار فرزند تھے، جن میں محمد، فرحان، مشاری اور ثنایان شامل ہیں۔ فرحان کی نسل بنی فرحان، مشاری کی نسل بنی مشاری اور ثنایان کی نسل بنی ثنایان کہلاتی ہے۔ ان تینوں نسلوں میں سے آل سعود کے پہلے، دوسرے اور تیسرے دور اقتدار میں کوئی بھی شخص سوائے بنی ثنایان کے عبداللہ کے بادشاہ نہیں بنا۔ عبداللہ آل سعود کے دوسرے دور اقتدار کے دوران میں 1841-43 بادشاہ رہا۔ بادشاہت، امارت یا امامت جیسا کہ مختلف ادوار میں مستعمل تھا، محمد بن سعود کی نسل میں ہی محدود رہی۔
محمد کے دو فرزند تھے، عبداللہ اور عبدالعزیز۔ عبدالعزیز اپنے والد محمد کے بعد پہلے دور اقتدار میں 1765ء سے 1803ء تک سعودیہ کا حاکم رہا۔ عبدالعزیز کے فرزند سعود نے 1803ء سے 1814 تک حکومت کی۔ سعود کے بعد اس کے فرزند عبداللہ نے 1814ء سے 1818ء تک سعودیہ پر حکمرانی کی۔ عبداللہ کی حاکمیت کے خاتمے کے ساتھ ہی آل سعود کے پہلے دور اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اسی زمانے میں جنت البقیع اور کربلا پر حملہ کیا گیا اور روضہ امام حسین ؑ سے مال اسباب لوٹ کر اور تقریبا دو ہزار عراقیوں جن میں مرد و خواتین شامل تھیں، کو قتل کرکے یہ لشکر واپس عازم درعیہ ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کو اس خطرے کا اندازہ ہوا، جس کے سبب انہوں نے درعیہ پر حملہ کیا، تاکہ سلطنت عثمانیہ کے علاقوں کو واگزار کروایا جاسکے۔ آل سعود اور ان کے لشکر کو شکست ہوئی اور اس خاندان کے بہت سے افراد مصری لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ آل سعود کا دوسرا دور اقتدار ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود سے شروع ہوا۔ ترکی بن عبداللہ نے 1823ء سے 1834ء تک حکومت کی۔ 1834ء سے 1838ء تک ترکی کا بیٹا فیصل حاکم ہوا اور پھر اقتدار آل ثنایان کے عبد اللہ کو منتقل ہوا۔ عبداللہ 1841ء سے 1843ء تک برسر اقتدار رہا۔ 1843ء میں اقتدار ایک مرتبہ پھر فیصل بن ترکی کی جانب لوٹا، وہ 1865ء تک برسر اقتدار رہا۔ اس کے بعد بالترتیب فیصل بن ترکی کے بیٹوں عبداللہ، عبدالرحمن اور سعود نے سعودیہ پر حکومت کی۔ ان تینوں کا دور اقتدار 1891ء تک رہا۔ اس اقتدار کے دوران میں تینوں بھائی مختلف ادوار میں بادشاہت کرتے رہے۔ دوسرے دور اقتدار کا آخری بادشاہ عبدالرحمن تھا۔ ملک میں جاری خانہ جنگی کے سبب عبد الرحمن کو شکست ہوئی اور عبد الرحمن کویت کے امیر کا مہمان بنا۔
1902ء عبدالعزیز بن عبد الرحمن بن فیصل بن ترکی بن عبداللہ بن محمد نے برطانوی سامراج کی حمایت سے آل سعود کے تیسرے دور اقتدار کی بنیاد رکھی۔ عبدالعزیز کا دور اقتدار 1902ء سے 1953ء تک رہا، پھر اس کا بیٹا سعود حاکم ہوا، جس کا اقتدار 1953ء سے 1964ء تک رہا، پھر سعود کا بھائی فیصل برسر اقتدار آیا، جسے اس کے بھتیجے نے قتل کر دیا، فیصل کے بعد عبد العزیز کا تیسرا بیٹا خالد 1975ء میں حاکم بنا۔ خالد کا اقتدار 1982ء تک رہا، پھر خالد کا بھائی فہد حاکم ہوا، شاہ فہد کی حکومت 1982ء سے 2005ء تک تھی۔ فہد کے بعد اس کا بھائی عبد اللہ بن عبد العزیز سعودیہ کا حاکم ہوا، جس کا اقتدار 2005ء سے 2015ء تک چلا۔ عبداللہ بن عبد العزیز کے بعد سلمان بن عبد العزیز حاکم ہوا، جو اس وقت مملکت سعودیہ کا حاکم ہے۔ درج بالا ترتیب اقتدار ظاہر کرتی ہے کہ نسلی اقتدار میں کچھ ترمیم کے ساتھ ایک نظام وضع کیا گیا تھا، جس کے تحت بادشاہت باپ سے بیٹے کو منتقل کرنے کے بجائے بھائی کی جانب منتقل کی جاتی رہی۔ اسی طرح دیگر اہم مناصب میں بھی شراکت کا نظام موجود تھا۔ ولی عہد کا تعین بھی اسی نظام کے تحت کیا جاتا رہا۔ شاہ سلمان نے اپنے خاندانی نظام شراکت اقتدار کے تحت اپنے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہد مقرر کیا۔ اس کے بعد مقرن کو معزول کرکے اپریل 2015ء میں اپنے بھتیجے محمد بن نائف کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔ یعنی خاندانی نظام شراکت پر پہلی ضرب لگائی اور بھائی کے بجائے بھتیجے کو ولی عہدہ سلطنت مقرر کر دیا گیا۔ مقرن کی ولی عہدی بھی زیادہ دیر قائم نہ رہی اور شاہ سلمان نے ولی عہد کا عہدہ رواں برس اپنے بیٹے محمد بن سلمان کے سپرد کرکے اپنے خاندانی نظام شراکت جو کہ اس خاندان کے اقتدار اور تسلط کا ایک اہم ستون تھا، کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا۔
نوجوان محمد بن سلمان نے ولی عہد بننے کے ساتھ ہی اہم ملکی اور بین الاقوامی امور پر اپنے تسلط کو مضبوط کرنے اور خاندان میں اٹھنے والی کسی ممکنہ بغاوت سے نمٹنے کے لئے اقدامات کا سلسلہ شروع کیا۔ بحیثیت وزیر دفاع یمن کی جنگ کا آغاز کیا، بحیثیت ولی عہد قطر پر اقتصادی اور زمینی پابندیاں لگائیں، دہشتگردی کے خلاف ایک کثیر ملکی اتحاد تشکیل دیا، مشرقی علاقوں میں فوج کشی کی، ملک کے قوانین میں اصلاحات کے سلسلے کا آغاز ہوا اور معتدل اسلام کی اصطلاح جو شاید سلفی مسلک کے علماء بالخصوص آل شیخ یعنی آل وھاب کے لئے قابل قبول نہ ہو، کے نفاذ کا اعلان ، وژن 2030ء کے نام سے سعودی ریاست کی ترقی کے منصوبے کا اعلان، خواتین کو زیادہ آزادیاں دینے کا اعلان، ایک ماڈرن سٹی کے قیام کا اعلان، موسیقی اور اس قسم کی محافل کے انعقاد کی اجازت جیسے اقدامات کئے۔ اسی طرح یہ شہزادہ طاقت کے تمام اہم مراکز اور شعبہ جات کو بھی ایک ایک کرکے اپنے تسلط میں لا رہا ہے۔ اس وقت ملک کے اہم ترین ادارے شہزادہ محمد بن سلمان کے تحت یا اس کے قابل اعتماد افراد کے تحت کام کر رہے ہیں۔ جس میں گذشتہ دنوں انٹی کرپشن کے نام سے بھی ایک ادارہ قائم کیا گیا اور اس ادارے نے پہلی ضرب شاہی خاندان کے باغی شہزادوں پر لگائی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے وقت سے ہی خاندان آل سعود میں بے چینی کا مشاہدہ کیا جا رہا تھا، جو اس وقت باقاعدہ اغواء، حراست اور کشت و خون کی جانب بڑھ گیا ہے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں دو اہم شہزادے قتل ہوچکے ہیں، کئی اہم شہزادے، اعلٰی افسران اور علماء زیر حراست ہیں۔ بیرون ملک فرار کر جانے والے شہزادوں کو گرفتار کرکے ملک میں لانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اب یہ شہزادہ اور کیا کیا گل کھلاتا ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
ایک بات جس کا تذکرہ میں نے اپنی قبل ازیں کی تحریر میں کیا، اظہر من الشمس ہے اور وہ یہ کہ محمد بن سلمان کو اب دنیا کے کسی اور خطے کو فتح کرنے سے قبل اپنے خاندان کو ہی فتح کرنا ہے اور اس سلسلے میں یہ شہزادہ تنہا ہوچکا ہے، چونکہ اقتدار کی شراکت کا نظام مسمار ہوچکا ہے اور اب باقی خاندان اور شہزادوں کو کوئی امید باقی نہیں رہی کہ سعودی اقتدار میں ان کا کوئی حصہ ہے، حتٰی کہ اب ان کے لئے سعودیہ میں شاہانہ زندگی گزانا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں سعودیہ میں کسی ناگہانی واقعہ کا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ منصور بن مقرن کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد عبدالعزیز بن فہد کا گرفتاری نہ دینے پر قتل اس خاندان میں رقابت کو جنم دینے کے لئے کافی ہے، ولید بن طلال، متاب بن عبداللہ، ترکی بن عبداللہ سمیت گیارہ شہزادے حکومتی حراست میں ہیں، یہ ان شہزادوں کے علاوہ ہیں، جو قبل ازیں گرفتار یا نظر بند کئے گئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ محمد بن سلمان اس داخلی جنگ میں کیسے کامیاب ہوتا ہے اور کتنا عرصہ مزید اپنے ان جارحانہ اقدامات کو جاری رکھ سکتا ہے۔ کیا ایسے حالات میں اقتصادی طور پر کمزور ہوتا سعودیہ مزید ابتری کی جانب نہیں جائے گا، خارجہ تعلقات کے حوالے سے سعودیہ کی کیا حیثیت بنتی ہے، یہ سب باتیں نوشتہ دیوار ہیں، جو بہرحال اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ میرے خیال میں آل سعود کے تیسرے دور اقتدار کا ’’کاؤنٹ ڈاؤن‘‘ شروع ہوچکا ہے۔ خداوند کریم حجاز کی عوام، وہاں کے مقامات مقدسہ کی حفاظت فرمائے اور جلد از جلد یہ غیر یقینی کا دور اپنے اختتام کو پہنچے۔آمین /۹۸۸/ ن۹۴۰