رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر علامہ قاضی نیاز حسین نقوی نے کہا ہے کہ ہر نبی اور امام اپنے ہر عمل میں دین کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے اور حکمِ خدا کے مطابق عمل کرتا ہے، دوسرے تاجدار امامت حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح نہ تو تاریخ ِ اسلام کی پہلی صلح تھی اور نہ ہی پہلی بار اعتراضات ہوئے، سیدالمرسلین حضرت محمد کی صلح حدیبیہ پر بھی اعتراض ہوتے رہے لیکن نبی اور امام جس کام میں دین کی بہتری اور مصلحت سمجھیں لوگوں کے اعتراض کی پرواہ کیے بغیر اسے انجام دیتے ہیں۔ ان کا مقصد محض اللہ کی رضا اور خوشنودی ہوتا ہے۔
جامع مسجد علی جامعتہ المنتظر لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے انہوں نے قیام ِ امام حسین ؑ کے بارے اس اعتراض کہ انہوں نے بھی امام حسن ؑ کی طرح صلح کیوں نہ کر لی؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ اعتراض آئمہ معصومین کی سیرت و حکمت عملی سے ناواقفیت کی بنا پر کیا جاتا ہے، حضرت علی ؑ کی بھی 25 سالہ خاموشی ایک طرح کی صلح و مصالحت تھی، اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی امام نے کسی کی بیعت ہرگز نہیں کی، اس حوالے سے حضرت علی ؑ، امام حسن ؑاور امام حسینؑ، تینوں کی سیرت و عمل ایک جیسا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امام حسن ؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا جاتا تو وہی کچھ کرتے جو امام حسین ؑ نے کیا تھا۔ جب یزید نے امام حسین ؑ سے بیعت کا اصرار کیا تو فرمایا کہ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔ ایک معیار بتا دیا کہ جو میرا پیروکار ہے وہ کبھی یزید یا اس جیسے شخص کی بیعت نہیں کرے گا، امام حسین ؑ نے امام حسن ؑ کی زندگی میں بھی ان کے صلح نامہ کی پابندی کی اور ان کی شہادت کے 10 سال بعد بھی اس پر کاربند رہے، جہاں تک امام حسن ؑ کی صلح کا تعلق ہے اس کے پس منظر سے بھی بہت سے لوگ آگاہ نہیں ہیں، اصل حقائق یہ ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی ؑ کی شہادت کے بعد امام حسن ؑ نے منصب ِ امامت بھی سنبھالا اور ظاہری خلافت و حکومت کا اعلان بھی کر دیا، 40 تا 50 ہزار لوگوں نے آپ کی بیعت بھی کی یعنی فوری طور پر صلح نہیں کی۔
انہوں نے چوتھے تاجدار امامت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم ِشہادت کے حوالے سے کہا کہ اب تک جو دین ہم تک پہنچا ہے اس میں امام سجاد ؑ کا بہت حصہ ہے، جن مشکلات و مصائب کو اس امام نے دیکھا اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی، کربلاء کے مظالم کے عینی شاہد تھے پھر اس کے بعد کے اسیری کے مراحل و ہ ناقابلِ برداشت ظلم و ستم تھا کہ آپ کو یہ کہنا پڑا کہ کاش مجھے میری ماں نہ جنتی۔ اپنے سیدالشہداء عظیم بابا امام حسین ؑ کے سر مبارک کی توہین اور خانوادہ پیغمبر کی عظیم مستورات کی اسیری و بے حجابی اس مظلوم امام کیلئے نہایت اذیت ناک مراحل تھے ۔/۹۸۸/ ن۹۴۰