رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ھندوستان کی برسر اقتدار پارٹی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے حکومت پاکستان نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دنیا کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نبرد آزما ہے جبکہ بھارت ہندوتوا ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ ھندوستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا۔ اقلیتوں کو مذہبی آزادی نہ ملنا ھندوستانی سیکولرازم کے جھوٹے دعویٰ کو بے نقاب کرتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 26 مئی کو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے آغاز کی پاکستانی حکومت اور عوام سخت مذمت کرتے ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر 9 نومبر 2019 عیسوی کو ھندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلے کے سلسلے کی کڑی ہے۔
ھندوستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا، ھندوستانی اقلیتوں کو مذہبی آزادی نہ ملنا ھندوستانی سیکولرازم کے جھوٹے دعوے کو بے نقاب کرتا ہے۔
خیال رہے کہ 9 نومبر 2019 کو ھندوستانی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔
ھندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنایا، پانچ رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل تھے۔
بابری مسجد کا پس منظر
1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔
برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔
1992 میں ہندو انتہا پسند پورے ھندوستان سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کردیا۔
حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کے علاقہ کو متنازع جگہ قرار دیے دیا، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے اور معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جس نے اب مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کردی ہے۔/