رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیتالله عبدالله جوادی آملی ایران کے مقدس شہر قم میں اپنے تفسیر کے درس خارج میں سورہ مبارکہ سبأ کی آیات کی تفسیر کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا : اس سورہ میں قیامت کے منظر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، بعض مشرکین فرشتہ ، جن قدیسین، ستارہ یا ستارہ کے مثل کی پرستش کرتے تھے، قیامت کے منظر میں محترم ترین معبود فرشتہ قدیسین اور انسان ہے، سوال ہوگا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے؟ یقینا وہ لوگ فرستہ اور انسان کے بزرگوں کی عبادت کرتے تھے ، لیکن یہ سوال کس لئے ہے؟ سوال استفہامی اور استعطائی نہیں ہے بلکہ توبیخی و اعتراضی ہے ۔
انہوں نے آیہ «وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلَائِکَةِ أَهَؤُلَاء إِیَّاکُمْ کَانُوا یَعْبُدُونَ» کی تلاوت کرتے ہوئے وضاحت کی : خداوند عالم قیامت میں لوگوں سے جو سوال کرے گا وہ اعتراضی سوال ہوگا ، حالانکہ لوگوں کے درمیان بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سے سوال ہوا، اس آیہ میں فرشتوں سے سوال کیا گیا ہے ، وہ لوگ بھی جواب میں مشرکین کی عبادت کا انکار نہیں کیا بلکہ خدا کے سوال کا اس طرح جواب دیا کہ صرف تو لایق عبادت و پرستش ہو، یہ سوال اس طرح ہے کہ اس کے بعد دوسرے جان لیں کہ مشرکین کے مختلف گروہ تھے، تین طریقہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہانت کرتے تھے، خود قرآن کریم کے سلسلہ میں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے سلسلہ میں روحی اوصاف کے مطابق اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے سلسلہ میں اور ان کی سیاسی رجحانات کی اہانت کرتے تھے ۔
قرآن مجید کے مشہور و معروف مفسر نے آیہ « وَإِذَا تُتْلَى عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا رَجُلٌ یُرِیدُ أَن یَصُدَّکُمْ عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُکُمْ وَقَالُوا مَا هَذَا إِلَّا إِفْکٌ مُّفْتَرًى وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سحر و مجنون اور جھوٹ کہنے کی نسبت مشکرین کی جانب سے تہمت ہے جس کے پشت پردہ ان کی سیاسی رجحانات بھی ہیں ، حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کے قوم سے کہا کہ یہ پیغمبر چاہتا ہے کہ تم لوگوں کو شہر سے باہر کر دے اور تمہارے دین کو بدل دے ، اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے بھی ایسے ہی کہا کرتے تھے کہ وہ چاہتے ہیں ہماری تاریخ ، غرور ، قومیت کو نابود کرے ۔