رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنے فقہ کے درس خارج کے اختمام میں اخلاقی نکات بیان کرتے ہوئے کہا : ہم لوگوں سے کہا گیا ہے پیسہ قرض لینا یا امانت پر لینا بہتر نہیں ہے کیونکہ یہ کام اس انسان کے وقار کو کمزور بنا دیتا ہے ۔ اخلاق کے بزرگ استاد نے کہا ہے کہ قرض و امانت لینا اچھی چیز نہیں ہے یعنی خدا نے جو دولت و ثروت اور وسائل عنایت کی ہے اسی میں زندگی بسر کرو ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : حوزہ علمیہ یا یونیورسیٹی کی تعلیم قرض ہے یا امانت کیونکہ ہم لوگ اس کو باہر سے حاصل کرتے ہیں ، اس میں تغیر و تبدیل بھی ہوتی ہے اور نہ جانے کتنے ہاتھ و پیر کے نیچے سے گذرتا رہتا ہے اس کے بعد ہم تک پہوچتا ہے ۔ اگر ہم مجتہد ہیں تو ہم نے یہ علم قرض لیا ہے اگر مجتہد نہیں ہیں تو وہ علم امانت کے طور پر ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں اخلاق کے استاد نے اظہار کیا : جب ہم لوگ باہر کے ذریعہ عالم ہوتے ہیں وہ آنکھ ، کان ، مطالعہ و سماعت کی فعالیت کی وجہ سے ہے ۔ یہی آنکھ اور کان ہمارے اندر بھی پایا جاتا ہے ، پس اپنی بات کو سنیئے اور اپنے صحیفہ کا مطالعہ کیجئے ۔
انہوں نے اس اشارہ کے ساتھ کہ جو چیز بھی انسان کے صلاح و فلاح میں حصہ دار ہے خداوند عالم نے انسان کو وہ چیز عنایت کی ہے بیان کیا : ان کتاب و الواح کو خدا نے عنایت کی ہے اور یہ بولتے بھی ہیں اور ان کے نقوش دیکھنے کے قابل بھی ہیں اگر کوئی سننے والا کان اور دیکھنے والا آنکھ رکھتا ہو تو اپنے اندر کی آواز سن سکتا ہے اور اپنے اندر کے صحیفہ کے نقوش کو دیکھ سکتا ہے «فالهمها فجورها و تقواها» ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے بیان کیا : سورہ مبارکہ حج میں فرمایا گیا ہے کہ بعض لوگوں کا اندرونی آنکھ نابینا ہے لیکن ان کا باہری یعنی ظاہری آنکھ نابینا نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کا قلب آنکھ و کان کا مالک ہے لیکن بعض لوگوں کے قلب میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی ۔ بہت کم لوگ ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو اپنی زندگی میں خواب نہ دیکھی ہو ، یہ علامت ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرا بدن ، آنکھ و کان بھی رکھتے ہیں کہ جس کے ذریعہ خواب کا سفر کرتے ہیں ۔
انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ اگر ہماری بیداری کا حساب و کتاب صحیح رہے تو ہمارے خواب بھی اچھے و مبشر ہونگے بیان کیا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر روز اپنے اصحاب سے سوال کرتے تھے «ما المبشرات» کل رات خواب میں کیا دیکھی یعنی بعض اصحابوں کا ایونیگ کلاس ہوتا تھا وہ لوگ سوتے تھے تا کہ کچھ سنیں اور دیکھیں ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی : خداوند عالم نے یہ راستہ الگ سے ہمارے لئے کھول رکھی ہے گویا کہ نقصان نہ ہو سکے «ان الانسان لفی خسر» اس لئے ہے کہ انسان اپنی اصل ثروت و دولت سے ہاتھ نہ دھو دے ورنہ عمر تو گذر ہی جاتی ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : خداوند عالم قرآن کریم میں دو جگہ فرمایا ہے ، خدا کی سنت یہ ہے کہ جو چیزیں عنایت کی ہے اس کو واپس نہیں لیتا مگر یہ کہ خود تم لوگ اس کو واپس کر دو «اِنَّ اللّهَ لا یُغَیِّرُ ما بِقَومٍ حَتّیَ یُغَیِّروا ما بِاَنفُسِهِم» و « ذَلِکَ بِأَنَّ اللّهَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَی قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ » ۔