رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جمادی الاول کی 9 تاریخ سن 786 ہجری میں شہید اول شیخ محمد بن مکی طاب ثراہ درجہ شہادت پر فایز ہوئے ۔دمشق کی سرزمین پر آپ کو شہید کرنے کے بعد آپ کے جنازہ کو لٹکاکر اس پرپتھر برسائے گئَے اس کے بعد آپ کے جسم اطہر کو جلایا گیا ، اناللہ و انا الیہ راجعون ۔
ابو عبد اللہ،شمس الدین،محمد بن مکی بن محمد شامی عاملی جزینی معروف بہ شہید اول سن 734 ہجری میں جبل عامل کے ایک قریہ جزین میں متولد ہوئے یہ قریہ فقہا ء اور علماء کی پرورش اور تربیت کے لحاظ سے بڑا بابرکت ہے اس لئے کہ شہید ثانی کی تشییع جنازہ میں 70صاحب فتوی مجتہدین شریک تھے اور شہید اول و دوم اسی علاقہ سے ہیں۔
فقہا کے نزدیک جب بغیر کسی قید کے شہید کہا جائے تو اس سے مراد شہید اول ہیں ۔
شہید اول کی علمی شخصیت
شہید اول فخر المحققین [فرزند علامہ حلی]کے شاگرد تھے جو علامہ حلی کے شاگردوں میں سے ایک ہیں شہید اول کی فقہی کتابوں میں معروف ترین کتاب "اللمعۃ الدمشقیہ"ہے جسے آپ نےبہت ہی مختصر مدت میں تالیف کیا اورتقریبا دو سو سال کے بعد ایک بزرگ مرتبہ فقیہ نے اسکی شرح لکھی اور انکا انجام بھی وہی ہوا جو شہید اول کا ہوا انہیں بھی شہید کردیا گیا انکی شہادت کے بعد وہ شہید ثانی کے لقب سے مشہور ہوئے۔
شہید اول کی ساری فقہی کتابیں نہایت با ارزش کتابیں ہیں اسی لئے انکی کتابوں پر آنے والے فقہا نے شرحیں لکھیں اور حاشیے لکھے ۔شیعہ فقہا میں محقق حلی ،علامہ حلی اور شہید اول کی کتابیں متون فقہی کی صورت اختیار کر گئیں اور آنے والوں نے ان پر شرحیں لکھی اور یہ حالت 180 سال پہلے تک باقی رہی پھر شہید انصاری کی کتابوں کو یہ مرتبہ حاصل ہوا۔
شہید اول کا خاندان
شہید اول کا خاندان صاحب علم و فضل خاندان تھا اور کئی نسلوں تک یہ شرف اس خاندان کو حاصل رہا ۔شہید اول کے تین بیٹے تھے جو سب کے سب عالم اور فقیہ دوراں تھے۔شہید کی زوجہ محترمہ ام علی اور انکی بیٹی ام الحسن بھی فقیہہ تھیں اور شہید بعض مسائل میں خواتین کو انکی جانب رجوع کرنے کا حکم دیتے تھے۔
ریحانۃ الادب میں آیا ہے کہ "بعض بزرگ علماء نے شہید کی بیٹی کو ستۃ المشایخ اور بعض نے ست المشایخ یعنی سیدۃ المشایخ کا لقب دیا ہے "
لقب شہید
شہید اول فقہائے امامیہ کی بزرگ ہستی اور تاریخ اسلام کے عظیم مجتہدین میں سے تھے آپ عالم عامل و کامل ،محدث ،رجالی،اصولی،ادیب و شاعرتھے اور علم رجال کی اصطلاح میں آپ کو"امام الفقہ" کہا جاتا ہے ۔شہید اول محمد بن مکی بن احمد عاملی نبطی جزینی شہید علماء کے اس نورانی سلسلہ میں خاص طور سے اپنے طایفہ میں علمی اور فقہی مرتبہ کے لحاظ سے بے نظیر اور لاجواب ہستی ہیں اور شاید اسی اعتبار سے انہیں "شہید اول "یعنی سب سے پہلے شہید کا لقب دیا گیا ورنہ شہید اول سے پہلےعلماء ،محدثین اور دانشمندوں میں بہت سارے شہید گذرے ہیں ۔
مختلف علوم میں مہارت
محقق اول کے بعد فقہاء میں سب سے نمایاں شخصیت انہی کی ہے اور اہل فن اور ماہرین میں کسی نے آجتک شہید اول کی استادی اور فقاہت میں ذرہ برابر تردید نہیں کی شہید اول صرف علم فقہ ہی نہیں بلکہ دیگر اسلامی علوم میں بھی پوری مہارت رکھتے تھے ۔ شہید نے لمعہ میں "مکاسب محرمہ "کی بحث میں تعلم سحر کی بحث کی ہے اس کتاب پر حاشیہ لکھنے والوں نے لکھا کہ"سحر حرام ہےمگر یہ کہ جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والوں کی نبوت کو باطل کرنے سحر کا علم سیکھا جائے تو کوئی عیب نہیں ہے یہاں پر حاشیہ لکھنے والوں نے مثال دیتے ہوئے یہ لکھا کہ "شہید اول بھی علم سحر سے واقف تھے اس لئے جب محمد یالوشی نے جبل عامل میں نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تو آپ نے اس کے سحر کو باطل کرکے اسے محکوم کیا اور برقوق کی حکومت کے زمانے میں اس کے قتل فتوی جاری کیا تھا"اگر یہ داستان حقیقت پر مبنی ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید اول کو علوم غریبہ میں بھی کافی مہارت حاصل تھی ۔شیخ عباس قمی نے یازدہ راسلہ نامی کتاب میں شہید کے اشعار کی جانب اشارہ کیا ہے پس شہید شاعر بھی تھے آپ کے کچھ اشعار یہ ہیں:
عَظُمت مُصیبَةُ عبدِک المسکینِ فی نَومِهِ عَن مَهرِ حورِ العِینِ
الأولیاءُ تمتّعوا بک فی الدُجى بِتَهجُّدٍ وَتخَشُّعٍ وَحَنینِ
فَطَرَدْتَنی عن قَرعِ بابِکَ دونَهم أترى لِعظُم جَرائِمی سَبَقونی
أوجَدتَهُم لم یُذنِبوا فَرحِمْتَهم أم أذنَبوا فَعَفَوتَ عَنهُم دونی
إن لَم یَکُن لِلعفوِ عندَکَ مَوضِعٌ لِلمُذنِبینَ فأینَ حُسنُ ظُنونی
شہید اول کے اساتذہ
شہید اول نے جن بزرگ ہستیو ں سے کسب فیض کیا ہے ان میں سے چند ایک کے نام یہاں ذکر کئے جاتے ہیں:
فخر المحققین،سید عمید الدین بن عبد المطلب حلی،سید ضیاء الدین عبد اللہ حلی،سید تاج الدین ابن معیہ حسینی،سید علاء الدین بن زھرہ حسینی،شیخ علی بن طران مطارابادی،شیخ رضی الدین علی بن احمد مزیدی،شیخ جلال الدین محمد حارثی،شیخ محمد بن جعفر مشھدی[شارح شمسیہ] اگرچہ ان میں سے بعض بزرگ جیسے شیک محمد بن جعفر مشھدی شہید اول کے مشایخ اجازہ میں سے ہیں۔شہید نے علماء شیعہ کے علاوہ تقریبا 40 علماء اھل سنت جیسے شیخ محمد یوسف قرشی شافعی [جو قاضی عضد الدین ایجی سے روایت نقل کرتے ہیں] سے اجازہ روایت دریافت کی ہے۔
شہید اول کے شاگرد
شہید اول کی خدمت میں علم و اجتھاد کی تربیت پانے والے شاگردوں کی فھرست بہت طولانی ہے جن میں سے ہر ایک نے شھید اول کے بعد امت کی ارشاد و ھدایت اور میراث تشیع کی محافظت کو اپنے ذمہ لیا۔ان میں سے چند نام یہ ہیں:
شیخ محمد ،شیخ علی و شیخ حسن یہ تینوں بزرگوار شھید اول کے فرزند ہیں،ام علی [آپی زوجہ] و ست المشایخ [آپ کی بیٹی]،شیخ مقداد سبوری،شیخ حسن بن سلیمان حلی،سید بدر الدین حسن بن ایوب صاحب کتاب "المحجۃ البیضاء"،شیخ زین الدین علی بن خازن حائری وغیرہ ۔
شہید اول کی تالیفات
اللمعۃ الدمشقیہ،الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ،الذکری،غایۃ المراد،القواعد الکلیہ فی الاصول و الفروع،حاشیہ شرح ارشاد،حاشیہ قواعد علامہ،خلاصۃ الاعتبار فی الحج و الاعتمار،المزار،المسائل
شھید اول کی شھادت
بالآخر شھید اول کو بروز پنجشنبہ نھم جمادی الاول سال 786 ہجری برقوق کے زمانے میں قاضی برھان الدین مالکی اور عباد بن جماعہ شافعی [لعنت اللہ علیہما]کے فتوی کی بنیاد پر قلعہ شام میں ایک سال قید کے بعد شھید کردیا گیا۔شھید اول نے قید کے دوران ہی اللمعۃ الدمشقیہ جیسی نفیس کتاب صرف سات دن کی قلیل مدت میں لکھی جبکہ اس کتاب کو لکھتے وقت آپ کے پاس فقھی منابع میں صرف المختصر النافع جیسی مختصر سی کتاب تھی ۔
آپ کے مخالفین کے دلوں میں تشیع اور شیعہ علماء کیلئے جو دیرنہ دشمنی اور کینہ تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ شھادت کے بعد آپ کے جسم مطھر کو دار پر لٹکاکراسکو سنگسار کردیا پھر اسے جلادیا ۔شہادت کے وقت شہید کی عمر 52 سال تھی۔
"مرکز تحقیقات کمپیوٹر علوم اسلامی" قم نے جامع فقہ نامی سافٹ ویر میں شھید اول کی کتابوں کی معلومات کے ساتھ مولف کے حالات بھی لکھے ہیں جسے میں نے شھید کے یوم شھادت کی مناسبت سے عام مومنین کے استفادے کیلئے ترجمہ کیا ہے آپ سب گزارش ہے ایک مرتبہ سورہ حمد اور تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت فرما کر شھید اول اور انکی زوجہ ام علی انکی بیٹی ام حسن اور انکی تین بیٹوں کی روح کو ارسال کیجیئے ۔
محمد عباس مسعود حیدرآبادی