رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بحرین میں سعودیوں پولیس کی موجودگی کے تیسرے سال مکمل ہونے پر بحرینی انقلابیوں نے شدید مظاھرے کئے ۔
سعودی پولیس 14 مارچ سن 2011 عیسوی میں دبئی پولیس کے ساتھ آل خلیفہ پولیس کی مدد اور بحرینی عوام کی مسالمت آمیز تحریک و انقلاب کو کچلنے کی غرض سے بحرین پہونچی تھی ۔
بحرینی عوام نے بحرین کے مختلف شھروں از جملہ سنابس ، بلاد قدیم ، جد حفص اور ستره میں سعودی غاصبوں کے خلاف مظاھرے کئے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ بیرونی فوجیوں کو اس ملک سے باہر نکالے ۔
نیز مظاھرین نے آل خلیفہ جیلوں میں بند، سیاسی افراد کی آزادی کا مطالبہ کیا ۔
مظاھرین نے اپنے ناروں میں تاکید کی کہ مطالبات کے تکمیل تک اپنی مسالمت آمیز تحریک کو باقی رکھیں گے ۔
اس کے مقابل آل خلیفہ فورس نے مظاھرین کو متفرق کرنے کی غرض سے ان پر گولیاں اور آنسو گیس کے گولے داغے جس کے نتیجہ میں ایک بحرینی عالم دین کا گھر نذر آتش ہوگیا ۔
علمائے بحرین کونسل نے اپنے بیانیہ میں اس سانحہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آل خلیفہ کے ہاتھوں داغے گئے آنسو گیس کے گولے سے منامہ میں شیخ غازی السماک کے گھر میں آگ لگ گئی جس سے ان کا کافی نقصان ہوا اور گھر کی چھت بیٹھ گئی ۔
واضح رہے کہ آل خلیفہ فورس ہمیشہ گھروں پر حملہ ور ہوتی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے گھروں کے اندر بھی آنسو گیس کے گولہ چھوڑتی ہے ۔
بحرین میں سن2011 عیسوی سے مسالمت آمیز عوامی مظاھرے ہورے ہیں جو آل خلیفہ فورس کی سختیوں اور مارپیٹ سے روبرو ہے اور سعودی فورس بھی ان مظالم میں آل خلیفہ فورس کے ساتھ برابر کی شریک ہے ۔