رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے اپنے ایک مقالہ میں امام حسین علیہ السلام کے قیامت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا : قائد ملت جعفریہ پاکستان نے بیان کیا : تاریخ شاہد ہے کہ 10 محرم 61 ھ کے بعد جب بھی حریت کی تاریخ رقم ہوئی ، جب بھی ظلم کے خلاف قیام کا مرحلہ آیا، جب بھی فساد کے خاتمے کی ضرورت ہوئی اور جب بھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کو مزاحمت دینے کی بات نکلی تو سب حریت پسند و ںامور تمام تحریکوں نے حسین اور کربلا سے ضرور استفادہ کیا۔ تعلیمات اور سیرت امام حسین علیہ السلام کی روشنی میں اصلاح امت کا سلسلہ ماضی بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔
انہوں نے وضاحت کی : اگر ہم اپنے دور میں امت کی حالت زار کا جائزہ لیں، عالم اسلام کے حالات کا مشاہدہ کریں اور اپنے ذاتی و اجتماعی کردار کا احتساب کریں تو ہمیں احساس ہوگا کہ آج بھی عملاً دین سے انحراف کیا جارہا ہے۔ آج بھی اسلام کی نمائندگی اور اسلام کی حفاظت کرنے والوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کی جارہی ہےی۔ آج بھی ظالم اور جابر حکومتیں مظلوم اور نہتے عوام کو تہہ تیغ کررہی ہیں۔ آج بھی ظلم و جبر اور بے عدلی و فساد کا زور ہے۔ آج بھی طاقتور عناصر اپنی ذاتی خواہشات اور منفی ایجنڈوں کو دین کا حصہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔آج بھی خدا کے قوانین کو معطل اور تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔عدل اجتماعی سے گریز کرکے بے عدلی اور ناانصافی کو اسلامی معاشروں کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
قائد ملت جعفریہ نے کہا : کرپشن اور حرام خوری سرایت کرچکی ہے۔ قومی خزانہ آج بھی بے دریغ لوٹا جارہا ہے۔ معاشی ناہمواری، غربت، افلاس اور جہالت کو آج بھی معاشروں میں فروغ دیا جارہا ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ خدا کے احکامات پر توجہ نہیں دی جارہی ہیں۔ بدعتوں کو ترویج مل رہی ہے۔ اخلاص عمل اور تقوی نام کی چیز خال خال نظر آتی ہے۔ خدا کے قوانین، قرآن کے احکامات، سنت رسول (ص) اور فرامین آئمہ کو نافذ اور رائج کرنے سے روکا جارہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی : انسانی، مذہبی، شہری اور آئینی حقوق سلب کئے جارہے ہیں۔ آزادیوں پر قدغن لگائی جارہی ہے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ مختلف لشکروں، سپاہوں اور گروہوں نے دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہی۔ اور دنیا کے مختلف حصے بالخصوص مسلمان ممالک اس کی زد میں ہیں۔ کہیں شیعہ سنی تفریق پیدا کرکی، کہیں غلیظ اور زہریلی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کفر کے فتوے لگاکر، کہیں لسانی اور علاقائی عصبیتوں کی آڑ میں اور کہیں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی صورت میں مسلمانوں کے اندر انتشار و افتراق پیدا کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے مشہور عالم دین نے بیان کیا : ان تمام انفرادی، اجتماعی، سماجی، معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی برائیوں کو دور کرنے اور دنیا کو ایک ہمہ گیر نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے فرامین، کردار، سیرت، انداز عمل اور جدوجہد سے ضروری استفادہ کریں۔ اصلاح امت کی اس جدوجہد میں اگر انہیں اپنی جان کی قربانی بھی پیش کرنا پڑے تو وہ دریغ نہ کریں۔
حجت الاسلام ساجد نقوی نے کہا : ہم نے عملی طور پر اتحاد و وحدت کے ذریعے ایک حد تک اصلاح امت کا فریضہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس راہ میں جان کی قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ دہشت گردی اور پابندیوں کا شکار بھی ہورہے ہیں لیکن وحدت امت اور اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد امت، وحدت امت اور اصلاح امت کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔