23 October 2015 - 18:32
News ID: 8591
فونت
پہلی قسط
رسا نیوز ایجنسی ـ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا : امام حسین علیہ السلام کے اس خطبے میں کی گئی منظر کشی سے واضح ہوتا ہے کہ یزیدی دور میں حکمران احکام شریعت الہی اور سنت رسول (ص) میں دیئے گئے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو بھلا کر گمراہی اور گناہ کی زندگی اختیار کرچکے تھے۔
حجت الاسلام سيد ساجد علي نقوي


رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے اپنے ایک مقالہ میں امام حسین علیہ السلام کے قیامت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا : تاریخ کے صفحات پر سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا وہ جملہ آج بھی اپنی پوری رعنائیو ں کے ساتھ رقم ہے جس میں آپ نے اپنے قیام کے اہداف و مقاصد واضح فرمائے تھے ۔ اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو ایک وصیت نامے میں مخاطب کرتے ہوئے امام عالی مقام نے وہ جملہ اس طرح ارشا د فرمایا : 

“میرے اس قیام ، میری جدوجہد کا اصل مقصد اور میری اس تحریک اور اقدام کا اصل ہدف صرف امت کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے”

اس فصیح و بلیغ جملے میں آپ نے اپنے تمام اہداف و مقاصد، قیام کی وجوہات ، امت کی حالت زار، حکومت وقت کے کردار اور پالیسیوں، مستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات ، اسلام کے تحفظ اور دین کی بقاء کے لئے اپنے خدا اور اپنے نانا سید الرسل (ص) کی طرف سے ودیعت کی گئی ذمہ داریوں کا مکمل احاطہ فرمادیا ہے۔

انہوں نے بیان کیا : اصلاح کا سوال بذات خود اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ فساد موجود ہے، انتشار و افتراق برپا ہے اور بگاڑ کی کیفیت ہے۔ لہذا ان برائیوں کے خاتمے کے لئے اصلاح کی ضرورت درپیش ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے خطبات میں اپنا موقف واضح کرنے کے لئے کئی مرتبہ اس دور کی صورت حال، کیفیت اور حالات کی نقشہ کشی اور منظر کشی فرمائی۔ مثلاً آپ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا۔ “اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کرچکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بناچکے ہیں ۔ یہ ظلم و فساد کو اسلامی معاشرے میں رواج دے رہے ہیں۔خدا کے قوانین کو معطل کررہے ہیں اور  “مال فی” کو انہوں نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے ۔ خدا کے حلال و حرام اور اومر و نواہی کو بدل چکے ہیں”۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : اس خطبے میں کی گئی منظر کشی سے واضح ہوتا ہے کہ یزیدی دور میں حکمران  احکام شریعت الہی اور سنت رسول (ص)  میں دیئے گئے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو بھلا کر گمراہی اور گناہ کی زندگی اختیار کرچکے تھے۔ لوگوں کے ساتھ انصاف اور عدل سے کام نہیں لیا جارہا تھا۔ عدل اجتماعی سے گریز کرتے ہوئے مستقل طور پر بے عدلی اور ناانصافی کو اسلامی معاشرے کا حصہ بنایا جارہا تھا۔ خدا نے انسان اور معاشرے کی بھلائی کے لئے شریعت کی شکل میں جو قوانین اور پابندیاں عائد کیں ان سے عملاً برات کرکے اپنے خود ساختہ قوانین رائج کئے جارہے تھے۔ قومی خزانے کو لوٹا جارہا تھا۔ کرپشن اور حرام خوری حکمرانوں کی عادت بن چکی تھی جس سے معاشی ناہمواری، غربت، افلاس اور جہالت کو فروغ مل رہا تھا۔ حکمران خود بھی اور اپنی رعایا میں بھی حلال و حرام کی تمیز نہیں کررہے تھے۔ بلکہ حرام امور کو حلال تصور کرکے انجام دے رہے تھے۔ خدا کے احکامات کی تابعداری کرنے کی بجائے نافرمانی کررہے تھے۔ جن کاموں سے خدا تعالی نے منع فرمایا تھا ان سے باز نہیں آرہے تھے۔

انہوں نے کہا : حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے مختلف مقامات پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ “اس وقت ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں کہ سنت رسول (ص)  ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں” تم دیکھ نہیں رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے منع نہیں کیا جارہا…تم کتنے بدبخت اور سرکش افراد ہوکہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت کرلیا اور تم لوگوں نے شیطان کو دماغ میں بسالیا ہے۔ تم لوگ بڑے جنایت کار، کتاب خدا میں تحریف کرنے والے اور سنت خدا کو فراموش کرنے اور اسے ختم کرنے والے ہو جو پیغمبر اکرم (ص) کے فرزندوں کو مار ڈالتے ہو اور تم اوصیاء کو اذیت دینے والے اور تم ایسے پیشوائوں کے پیروکار ہو جو قرآن مجید کا تمسخر اڑاتے ہیں…اسلام میں تحریف ہوجانے کا خطرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے نابود ہونے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے قانو ن کو ختم کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ بدعتیں زندہ کی جارہی ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد نقوی نے بیان کیا : ان تمام جملوں میں سید الشہداء نے کھل کر اور دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ یزیدی حکومت کی طرف سے بدعتوں کو فروغ دینے اور سنت رسول (ص) کے خاتمے کا سلسلہ فوری طور پر روکنا ضروری ہے۔ اسلام کے زندگی بخش قوانین کو نظر انداز کرنے اور باطل کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ قرآن اور قرآنی احکام کی رو سے انسان کا قتل، ظلم و ناانصافی، انسانی حقوق کی پامالی، شہری آزادیوں کا سلب کیا جانا، غربت، افلاس اور جہالت کا فروغ، کرپشن اور بدامنی کا راج، عدل اجتماعی کے تصور کا خاتمہ، استحصال اور اس طرح کے دیگر امور حرام ہیں لیکن یزید اور اس کے کارندے بلا دریغ یہ حرام امور نہ فقط انجام دے رہے تھے بلکہ انہیں حلال ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں جاری تھیں ان کے خلاف جہاد درپیش تھا۔ایسی صورت حال میں امت کی رہبری و رہنمائی فرمانا، امت کو ہدایت کا راستہ دکھانا، امت کو فساد اور شر سے بچانا، امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے آگاہ کرنا اور امت کو صحیح اور سچے نظام حکومت اور نظام حیات کی طرف متوجہ کرنا صرف اور صرف آپ ہی کی ذمہ داری تھی۔ جبھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ “اسلامی معاشرہ کی رہبری اور اس ظلم و فساد اور ان ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے میں (حسین) دوسروں کی نسبت زیادہ سزا وار ہوں…


یہ ایسی حکومت ہے جس نے قرآنی احکام، سنت اور قوانین پیغمبر اکرم (ص) میں تغیر و تحریف کو اپنا شیوہ بنالیا ہے لہذا اس کے خلاف جدوجہد کرنا میرا دینی فریضہ ہے… میری ذمہ داری ہے کہ میں تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑدوں اور قرآن اور اسلام کے فراموش شدہ حیات آفرین احکام کو دوبارہ اس معاشرے میں رواج دوں۔ ظلم و ستم اور اسلامی قوانین میں تبدیلی کو روکوں…ان حالات میں ظلم و فساد کے خلاف جدوجہد ضروری ہے یعنی اگر اس جدوجہد میں امت کے پاک ترین افراد کا خون بھی بہہ جائے تو فقط یہ کہ دشمن اسلام سے نفع نہیں اٹھا سکے گا بلکہ اس کے بہترین نتائج ظاہر ہوں گے اور اسلام پھلے پھولے گا… اب مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے ملاقات کی رغبت کرے اور میں تو موت کو اپنے لئے سعادت اور ظالموں کے ساتھ جینے کو بوجھ سمجھتا ہوں”۔

انہوں نے کہا : امام عالی مقام کے ان ارشادات نے واضح کردیا کہ آپ کی جدوجہد، آپ کا سفر، آپ کا قیام، آپ کی شہادت اور پھر آپ کے خانوادے کے پابہ زنجیر طویل سفر کا مقصد ذات، مفادات ، شہرت ، دولت ، فقط حکومت یا نمود و نمائش نہیں تھی۔ بلکہ صرف اور صرف اصلاح امت اور فلاح امت تھی۔ اس جدوجہد نے اس اصول کی بنیاد ڈال دی ہے کہ جب بھی ، جس دور میں بھی، جس خطے میں بھی اور جن حالات میں بھی اس قسم کی صورت حال درپیش ہو تو عظیم مقاصد اور اجتماعی مفادات کے لئے جان کا نذرانہ پیش کردینا چاہیے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬