رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین سید ساجد علی نقوی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا : حالیہ انکشافات سے قبل بھی کئی اسیکنڈلز منظر عام پر آتے رہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرکے ارض وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس غلاظت سے پاک کیا جائے ۔
اس بیان میں آیا ہے : وکی لیکس کے بعد پاناما لیکس کے انکشافات نے بھی دنیا میں بھونچال مچا دیا ہے، معاملے کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم کی جانب سے عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن اپوزیشن کی جانب سے اعتراضات سامنے آگئے، اب اس صورتحال میں ایسا طریقہ کار تشکیل دیا جائے جس پر سب کو اعتماد ہو اور جو آج تک منظر عام پر آنیوالے تمام سیکنڈلز کی تحقیقات کرے تاکہ ارض وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس غلاظت سے پاک کیا جاسکے، افسوس ملک میں کوئی مضبوط سسٹم وضع نہیں ہو اگر ہوتا ایسا تو آئے روز بے ثمر کمیشن بنانے کی نوبت تک نہ آتی ۔
انہوں نے موجودہ ملکی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید تحریرکیا : کچھ عرصہ قبل وکی لیکس کا شور اٹھا اور اب آف شور کے نام پر پاناما لیکس کے انکشافات سامنے آئے جس سے پاکستان کے ساتھ پوری دنیا میں بھونچال برپا کردیا ہے، اس غلغلے کو بھانپتے ہوئے وزیرآعظم کی جانب سے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کمیشن پر اعتراضات عائد کرتے ہوئے اپوزیشن نے بھی مسترد کردیا اب سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ تمام معاملات آئین اور قانون کی روشنی میں اتفاق رائے و باہمی مشاورت سے حل کئے جائیں اور ایسا سسٹم تشکیل دیا جائے جس پر سب کو اعتماد ہو اگر بین الاقوامی سطح پر کسی غیر جانبدارکمیٹی کا احیاء بھی کرنا ہے تو باہمی مشاورت سے کیا جائے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے زور دیتے ہوئے کہا: حالیہ انکشافات سے قبل بھی کئی سیکنڈلز منظر عام پر آتے رہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرکے ارض وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس غلاظت سے پاک کیا جائے تاکہ بین الاقوامی سطح پر بدعنوانی کے باعث مسلسل بدنامی کا سلسلہ تھم جانا چاہیے اور پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا : افسوس آج تک کسی کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے نہیں آسکی اور مسائل سے نمٹنے کے لئے آئین و قانون بالکل واضح ہے، اگر ملک میں احتساب کے نام پر سیاست کی بجائے آئین و قانون کی روشنی میں سنجیدہ اقدامات اٹھائے جاتے اور احتسابی اداروں کو مضبوط کیا جاتا تو پھر بار بار بے ثمر کمیشن تشکیل دینے کی نوبت ہی نہ آتی بلکہ ادارے ازخود اپنا کام شروع کر دیتے۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ نے کہا : ہم بیرونی صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی دعوت دیتے ہیں، محض دکھاوے کیلئے بڑے بڑے وفود کے تبادلے بھی ہوتے ہیں لیکن آف شور کمپنیوں کا سہارا لے کر سرمایہ ملک باہر منتقل کیا جائے گا اور ٹیکس نیٹ میں چھ دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود چند لاکھ افراد ہی لائے جائیں گے تو پھر کس طرح معاشی طور پر ملک کو مستحکم کیا جا سکتا ہے، اگر ہمیں ارض وطن کو صحیح معنوں میں ترقی یافتہ، خوشحال اور مستحکم بنانا ہے تو پھر ہمیں اپنے نظام پر بھی غور کرنا ہوگا اور سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے۔