رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام کے مفتی آعظم شیخ احمد بدرالدین حسون نے المیادین سے گفتگو میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمارا ملک ھرگز تقسیم نہ ہوگا کہا: بعض شام مخالفین، شام واپس لوٹنے کی تمنا رکھتے ہیں ۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ہوٹل میں رہ کر بیرونی طاقتوں کے احکام کی پیروی کرنے والے افراد ھرگز آزاد نہیں ہیں کہا: بعض افراد کو اسلام مخالف بتایا جاتا ہے جب کہ اپنی ماوں کے قتل کا فتوی دینے والوں کو اسلام کا حامی کہا جارہا ہے ۔
شیخ حسون نے مزید کہا: ہم نے شام مخالفین کے لئے دروازے کھول رکھے ہیں ، صدر جمھوریہ بشار اسد نے ھرگز ان لوگوں پر دروازے بند نہیں کئے تھے ۔
شام کے مفتی آعظم نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ شام کے سوا کسی بھی عرب ملک میں مختلف مذھب کے دینی مراکز و مدارس نہیں ہیں کہا: سن 2010 میں شام میں مساجد کی تعداد 25 هزار پہونچ گئی تھی ۔ شام میں کبھی بھی مذھب و قبائل کے معیاروں پر ملازمت نہیں دی گئی اور اس ملک میں کبھی بھی مذھبی اختلافات نہیں تھے ۔
انہوں نے مزید کہا: جب بڑی طاقتوں کو احساس ہوا کہ شام، قدس کی واپسی کا نقطہ آغاز ہے تو اس کی نابودی کے درپے آگئے ، سن 1973 میں عرب ممالک کے پٹرول کی قیمت بڑھنے کا سبب شامی فوج کا خون تھا ، ہم اس وقت اسرائیل سے جنگ میں مصروف تھے ۔
شیخ حسون نے کہا: ہم نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اگر شام اور لبنان پر حملہ ہوا تو یہ آگ آپ کے بھی دامن گیر ہوگی ، ہمارا یہ بیان یوروپ کو نصیحت نہیں انتباہ تھا ، میں نے شدت پسندی کے نام پر ترویج پانے والی جمھوریت کی بہ نسبت مغرب کو متنبہ کیا تھا ۔