حضرت امام سجاد (ع) ایسے بلند اخلاق کے مالک تھے کہ مومنین کے دل ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے ۔
جب تک سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کر لیتا اور یہ مسئلہ سرد نہیں ہو جاتا، اسوقت تک بلاشبہ پاکستان میں اب اس پریشر گروپ کیطرف سے فرقہ وارانہ کارروائیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ خیر اربابِ اقتدار کو اُنکا اقتدار مبارک ہو، بہرحال ہم یہ عرض کئے دیتے ہیں کہ زبردستی تو آپ لوگوں کی سیاسی وفاداریاں بھی تبدیل نہیں کرا سکتے، پھر مذہبی عقائد کی تبدیلی تو بہت دور کی بات ہے۔
کیا ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ویسے ہی حالات پیدا ہوجائیں اور ایک مسلک کی عددی اکثریت کو دوسرے مسلک کے خلاف استعمال کرکے فضا کو تیرہ و تار کردیں۔ کیا مردانِ رشید جاگ رہے ہیں؟ کیا اہل تدبر اس صورتحال پر غور کرینگے؟ کیا مردان کار میدان میں آئیں گے؟
حال ہی میں فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے چارلی ایبڈو میگزین کی جانب سے پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔
عاشورائی فقہ وہ سانچہ ہے جو عاشورا کے سلسلے میں ہمارے تصورات کو تاریخ کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔
جب کوئی سائل امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آتا تھا توخوش و مسرور ہوجا تے تھے اور فرماتے تھے خدا تیرا بھلا کرے کہ تو میرا زاد راہ آخرت اٹھانے کے لیے آ گیا ہے ۔
امام حسین (علیہ السلام) نے عاشوراء کے دن صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کی .
10 محرم کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام بجا لائے، آپ کی مصیبت پر خوب روئے اور اپنے گھر والوں اور اعزہ واقارب کو بھی رونے کا حکم دے، اپنے گھر میں عزا برپا کرے ۔
ابوالفضل علیہ السلام نے بزرگوں کے دل و فکر کو مسخر کیا، ہر جگہ اور ہر وقت حریت پسندوں کے لئے زندہ جاوید ترانہ بن گئے؛ کیونکہ اپنے بھائی کے لئے ایک عظیم قربانی رقم کی ۔
سچ تو یہ ہے کہ عالم نما افراد کی جہالت اور حقیقی علماء کی غفلت اہم اور مہم عدم تشخیص کسی لائحہ کا نہ ہونا عدم اتحاد اور بعض کی سستی شہرت اور مقام و مرتبہ کی چاہت اور عیش و عشرت کی عادت نے انہیں کھوکلا کردیا ہے ۔
چھ محرم کے حوالے سے تاریخ میں ملتا ہے کہ چھٹی محرم الحرام کو خولی ابن یزید اصبحی کو دس ہزار، کعب ابن الحرو کو تین ہزار، حجاج ابن حر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔
مصنف محترم نے ناصبیوں کا یہ نقطہ نظر نقل کیا ہے کہ امام حسینؑ کی طرف داری غلو پر مبنی ہے نیز انھیں باغی قرار دے کر وہ انکے قتل کو جائز قرار دینے کے درپے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ الازہری نے یہ واضح کیا ہے کہ کربلا میں امام حسینؑ کا مقصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے۔
کربلا کے واقعہ نے ساری امت مسلمہ کے دلوں کو چھلنی کردیا، اس کا درد والم اور اس کی تکلیف وملال جتنا اہل تشیع کو ہے اس سے کہیں زیادہ اہل سنت کو ہے، درین حال جب بھی محرم کا مہینہ آتا ہے دونوں گروہوں کے درمیان اختلافات بھی بھڑک اٹھتے ہیں ۔
آپ نے١٨٩٩ء کوایک علمی گھرانہ میں آنکھ کھولی ،آپکاآبائی تعلق موضع پتن ہیٹری ،ضلع بجنور یو۔پی کے زیدی سادات سے تھاآپ کے والد محترم کانام سیدآفتاب حسین اورآپ کے جدگرامی کانام سید غازی الدین حسن تھاآپ کے والد جناب مولانا مرحوم سیدآفتاب حسین دہلی کی شیعہ جامع مسجدمیں پیش نماز تھے .
آج مسجد اقصی کو نذر آتش کئے جانے کے افسوسناک واقعے کو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی اس مقدس مقام کے اردگرد صہیونی فوجی تعینات ہیں۔ مسجد اقصی کے نیچے صہیونی رژیم نے لمبی لمبی سرنگیں کھود رکھی ہیں جن سے اس مسجد کی بنیادیں خطرے کا شکار ہو گئی ہیں۔
بر صغیر میں امام حسین اور کربلا سے مربوط عنوان پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور عربی و فارسی زبان سے بہت ساری کتابیں اور مقالات ترجمہ کی گئیں ہیں ۔ ایام محرم میں استفادہ کے لئے ڈیجیٹل لائیبریری سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات منظرعام پر لانے میں جلدبازی عرب ممالک کے درمیان اختلافات جنم لینے کا باعث بنے گی۔
بانیان مجالس و جلوس ہائے عزا اس ماہ محرم کو ایک چیلنج سمجھیں اور یہ سوچ و فکر کریں کہ اسوقت دنیا ان پر نظریں گاڑے ہوئے ہے اور کسی بھی غلطی، گستاخی یا اشتعال انگیزی کا فائدہ ہمارے دشمن نے اٹھانا ہے، جو ایسے موقعہ کی طاق میں ہے تو صورتحال بہتر رہے گی۔
انسان کے اندر دو ایسی چیزیں ہیں جو دکھتی نہیں لیکن انکے اثرات صدیوں پر اثر رکھتے ہیں: ایک عقل و شعور ہے دوسرے جذبات و خواہشات ہیں۔
کوپاگنج ھندوستان کے امام جمعہ نے کہا : ولی فقیہ اپنے خصوصی اختیارات کے ذریعہ سماج میں پائے جانے والے مسائل کا حل نکالتا ہے اور سماج و معاشرے کو اختلاف و انتشار سے بچاتا ہے ۔