13 May 2020 - 23:30
News ID: 442723
فونت
 آج اسرائیل، امریکہ اور انکے حواری چاہتے ہوئے بھی مسئلہ فلسطین کو خاموش کرنے سے قاصر ہیں۔ اس میں یوم القدس کے ذریعے ہونیوالی عوامی بیداری کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس عالمی دن جسے امام خمینی نے یوم اللہ اور یوم مستضعفین جہان قرار دیا ۔

تحریر: سید اسد عباس

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قضیہ فلسطین فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ صہیونی اور ان کے سرپرست اسی طرح اس ریاست کو ناجائز اور خطے میں مسائل کا سرچشمہ قرار دینے والے تقریباً حتمی کاوشیں سرانجام دے رہے ہیں۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا، یروشلم میں امریکی سفارتخانے کا قیام، صدی کا سودا (ڈیل آف سینچری) اس کے لیے مسلمانوں میں سے اپنے حامیوں کو کھل کر سامنے لانا، عرب ممالک سے خفیہ تجارتی، اقتصادی اور سیاسی روابط کو طشت از بام کرنا، بحرین میں ڈیل آف سنچری کے حوالے سے ایک عالمی نشست، اسی طرح فلسطین اور تحریک مزاحمت کی حامی قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے اقدامات۔ شام میں مسائل، عراق میں مشکلات، امریکی سرپرستی میں یمن کے خلاف طویل جنگ، ایران پر اقتصادی اور معاشی پابندیاں، بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے اور پاکستان کے خلاف معرکوں میں صہیونیوں کا بھارتی افواج کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا۔ ایران کے فوجی کمانڈروں بالخصوص القدس فورس کے سربراہ کا قتل۔

امریکہ، سعودیہ، جرمنی، مصر، قطر اور دیگر یورپی ممالک کا حزب اللہ، اخوان المسلمین اور جہاد فلسطین کے لیے سرگرم عمل تنظیموں پر پابندیاں لگانا، ان کے اثاثوں کو منجمد کرنا، نقل و حمل کو روکنا اور انہیں دہشت گرد قرار دینا، اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اسرائیل اپنی ریاست کو استحکام دینے اور دوام بخشنے کے لیے ہر دستیاب حربہ استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ عرب دنیا میں ہمارے کچھ دوست ہیں، جو ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ان دوستوں کو اسرائیل نے بہت عرصہ خفیہ رکھا، تاہم اب اسے ایسا لگتا ہے کہ ان تعلقات کو خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ لہذا وہ ان تعلقات کا ببانگ دہل اعلان بھی کرتا ہے اور ان ممالک کی اعلیٰ سیاسی، عسکری اور سفارتی شخصیات سے ملاقاتوں کی خبریں بھی اکثر و بیشتر اخبارات اور میڈیا کا حصہ بن رہی ہیں۔ مزاحمتی بلاک بھی اسرائیل اور اس کے حواریوں کی جانب سے کیے جانے والی تمام جارحانہ اقدامات کا حتی الامکان مقابلہ کر رہا ہے، یہ معرکہ اس وقت اسرائیل کی نام نہاد سرحدوں تک پہنچ چکا ہے۔

مصر میں اخوان، شام میں حزب اللہ، ایران اور عراق کی مشترکہ قوت۔ اسی طرح فلسطین میں حماس، جہاد فلسطین اسلامی کے مجاہدین کو حاصل ہونے والی فوجی اور اقتصادی خود انحصاری اسرائیل کے لیے پریشان کن ہے۔ جس کا اظہار وہ اکثر شام میں فضائی حملوں کے ذریعے کرتا رہتا ہے۔ اسرائیل کی مزاحمتی بلاک کو ناکام کرنے کی کوشش اور اس کو نابود کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے باوجود مزاحمتی بلاک کا مضبوط سے مضبوط تر ہونا قابض صہیونی ریاست کو اندرونی اور بیرونی دباؤ سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ اسرائیل کا زیادہ بجٹ اپنے ملک کے دفاع پر صرف ہوتا ہے۔ صحت، تعلیم، معاشرتی فلاح جیسے امور دفاعی بجٹ کے مقابل کچھ بھی نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ملک کی اہم شخصیات پر فنڈز میں خورد برد اور کرپشن کے الزامات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی کرپٹ سیاستدانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسرائیل کے شہری جو اکثر دوہری شہریت کے حامل ہیں، شش و پنج کی کیفیت میں ہیں کہ آخر کب تک ہم اس خوف کی فضا میں رہ پائیں گے۔

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ فلسطین کے لیے قائم مزاحمتی بلاک کا قیام عرب ریاستوں کے اتحاد سے وجود میں آیا تھا۔ اسرائیل سے ہونے والی چند جنگوں کے بعد یہ بلاک عملاً ختم ہوچکا ہے۔ او آئی سی بھی مسجد اقصیٰ کو صیہونیوں کی جانب سے آگ لگانے کے ردعمل میں سامنے آئی تھی، لیکن آج بیشتر عرب ریاستیں ایک ایک کرکے اسرائیل کے ساتھ ظاہری اور خفیہ تعلقات قائم کر رہی ہیں، او آئی سی کی حالت کسی سے پنہاں نہیں۔ انقلاب اسلامی کے پیشوا سید روح اللہ موسوی نے اوائل انقلاب میں ہی اس چیز کو محسوس کر لیا تھا کہ عالم اسلام میں اب اسرائیل کو روکنے والی کوئی قوت باقی نہیں رہ گئی۔ رفتہ رفتہ اسرائیل اور اس کے حواری مسلمانوں کو مختلف حربوں اور حیلوں سے اس مسئلہ سے دور کردیں گے۔ لہذا انہوں نے اوائل میں ہی ایسے اقدامات کیے، جس سے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ زندہ رکھا جاسکے۔ عاشور اور شعائر ہائے اسلامی سے درس لیتے ہوئے امام خمینی نے رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا اور مسلمانوں کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ اس روز مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کریں۔ وہ جنگ جو مسلمان حاکم میدان کارزار اور مذاکرات کی میز پر ہار چکے تھے، کا پرچم امام خمینی نے ایک اعلان کے ذریعے مسلمان عوام کے ہاتھوں میں تھما دیا۔

آج اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواری چاہتے ہوئے بھی مسئلہ فلسطین کو خاموش کرنے سے قاصر ہیں۔ اس میں یوم القدس کے ذریعے ہونے والی عوامی بیداری کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس عالمی دن جسے امام خمینی نے یوم اللہ اور یوم مستضعفین جہان قرار دیا، کی مناسبت سے دنیا بھر میں جلوس، مظاہرے، ریلیاں اور پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ یوم القدس منانا بنیادی طور پر کسی ایک مسئلہ کو اہمیت دینا نہیں ہے، بلکہ یوم القدس سے مراد ظلم، بربریت، جارحیت، ناانصافی کے خلاف قیام ہے۔ یوم القدس فقط فلسطین کے مسلمانوں کا دن نہیں یہ دن یمن، کشمیر، بھارت، روہینگا اور افغانستان کے مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مظلوم انسانوں سے اظہار ہمدردی کا دن ہے۔ ہماری ایک مشکل یہ ہے کہ ہم تقریباً سبھی مذہبی و غیر مذہبی مناسبتوں کو رسم و رواج کا رنگ دے دیتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہر رسم بری ہو۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ نسلوں کی تربیت میں رسوم و رواج کا بھی اہم کردار ہے، تاہم مشکل یہ ہے کہ تقریباً سبھی رسموں پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جاتا ہے۔ رسوم و رواج عموماً کسی ایک خاص وقت میں اپنائی جانے والی روش کو کہا جاتا ہے، جو ممکن ہے، اپنانے والوں نے بیداری اور حکمت کے ساتھ اپنائی ہو، تاہم آج کے حالات اس رسم سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ ہمارے دیہاتوں میں ایسی بے پناہ رسمیں ہیں، جو بزرگوں نے کسی ایک خاص وقت میں اختیار کی تھیں، تاہم آج کی نسلیں ان پر عمل کرنے پر مجبور ہیں اور ان رسموں کو نبھانے کے لیے مشکلات سے گزرتے ہیں۔ یہ رسمیں موجودہ معاشی، معاشرتی حالات سے مطابقت نہیں رکھتیں یا اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ الہیٰ ادیان کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی رسوم و رواج یعنی بزرگوں کے طرز عمل کی اندھی پیروی ہی تھی۔

آج نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ عالم اسلام میں بیداری کے لیے اختیار کی جانے والی روشیں رسموں کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ وہ اقدامات جن کا مقصد قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا تھا، رسم بن کر اندھی تقلید کا باعث بن رہی ہیں۔ جس سے یقیناً وہ اثرات حاصل نہیں ہو پاتے، جو ان مناسبتوں کا حقیقی ہدف تھے۔ چونکہ یہ رسم ہیں تو ان کا نتیجہ نسلوں کو ایک روش کی تربیت کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ اگرچہ یہ نتیجہ بھی کم نہیں ہے، تاہم خود ہدف سے متصادم ہے، یعنی بیداری کے بجائے اندھی پیروی کی ترویج۔ ہمیں ان مناسبتوں کے انعقاد میں اکثر مشکل بھی اسی لیے پیش آتی ہے کہ ہم ان کی حقیقت سے آگاہ نہیں، بلکہ ان کو ایک رسم کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ آج جبکہ پوری دنیا بالعموم اور مذہبی مقامات بالخصوص کرونا کے باعث بند ہیں تو ہم اس مشکل کا شکار ہیں کہ یہ رسمیں کیسے ادا کی جائیں۔ اگر ہم ان مناسبتوں کی حقیقت کو مدنظر رکھتے تو شاید ہمارے لیے نئے حالات کے مطابق عزاداری اور یوم القدس کا انعقاد مشکل نہ ہوتا۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬