حوزہ علمیہ کے استاد اور حزب اللہ لبنان کے ثقافتی امور کے ذمہ دار حجت الاسلام شیخ هشام شری نے رسا نیوز ایجنسی کے عالمی بخش کے رپورٹر کے ساتھ گفتگو میں حزب اللہ لبنان کی صیہونیوں کے ساتھ ۳۳ روزہ جنگ میں کامیابی کی برسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : استقامتی محاذ کا اسلحہ سن ۲۰۰۰ عیسوی میں کاٹ اوشا تھا کہ جو صرف فلسطین کے قبضہ شدہ شمالی خطے تک پہوچ سکتا تھا اور صیہونی حکومت کی پناہ گاہ کو تباہ نہیں کر سکتا تھا اور وہ اس گمان میں تھے کہ حزب اللہ کی قوت ایک مقدار اضافہ ہوئی ہے اور وہ استقامتی محاز پر پہلے ہی حملہ میں شکست دے دےنگے ۔
انہوں نے وضاحت کی : لیکن جب صیہونی حکومت نے جنگ شروع کرنے کی ابتدا کی ، جنگ مکمل طور سے شروع ہو گیا کہ جنوبی لبنان کے تمام حکمت عملی اور جغرافیائی مساوات کو تبدیل کر دیا ۔ یہاں تک کہ حزب اللہ نے زمین سے دریا میزائیل کے ذریعہ صیہونی حکومت کی کشتی کو تباہ کر دیا اور دشمن کو شدید نقصان پہوچایا اور یہ بتایا کہ قدس غاصب حکومت حزب اللہ کے میزائیل کے جال میں پھس چکا ہے جو کبھی بھی جزب اللہ کے اس طاقت و قدرت کے سلسلہ میں تصور نہیں کر سکتے تھے ۔
دنیا میں حاج قاسم سلیمانی جیسا کمانڈر نہیں پایا جاتا ہے
حجت الاسلام هشام شری نے شہید حاج قاسلم سلیمانی کا جنگ تموز میں کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : جب صیہونی حکومت کی جنکی جہاز نے جنوبی ضاحیہ پر بمباری کی اور عمارتوں کو تباہ کر رہی تھی ، حاج قاسم سلیمانی استقامت کے فرمانداروں کے ساتھ دشمن کے جنگی آتش کے نیچے رہنمائی کر رہے تھے اور یہ جیسے وقت میں ہے کہ حاج قاسم سلیمانی اس کام کو شام یا ایران سے بھی انجام دے سکتے تھے ۔ وہ ان کماڈر میں سے تھے کہ دشمن سے جنگ میں صف اول پر مجاہدین کے ساتھ موجود رہتے تھے اور کہنا چاہئے کہ « دنیا میں حاج قاسم سلیمانی جیسا کمانڈر نہیں پایا جاتا ہے ۔ »
انہوں نے اسی طرح وضاحت کی : حاج قاسم سلیمانی جنگ تموز کے بعد بہت زخمی ہونے کے با وجود لوگوں کی مدد میں مشغول ہو گئے تا کہ لوگوں کی پریشانی و درد کو کم کر سکے اور یہاں پر کہنا چاہیئے کہ « جنرل حاج قاسم سلیمانی دشمنوں کے لئے عذاب اور آتش اور مظلوموں کے لئے رحمت و محبت تھے »