رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں علماء و طلاب کی شرکت کے ساتھ ماہ صفر میں ایام عزاداری کی چھٹی کے بعد اپنے تفسیر کے درس کو جاری رکھتے ہوئے سورہ مبارکہ یسین کی تفسیر میں بیان کیا : ذات اقدس الہی نے اس سورہ میں اصول دین کے علاوہ توحید و نبوت کے مسائل کے ساتھ مختلف آیات میں معاد کے موضوع کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : اکثر لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی موت اس کی نابودی کا سبب ہوتی ہے ، وہ لوگ جو معاد اور برزخ کو قبول کرتے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ انسان بیچ میں نابود اور پھر دوبارہ زندہ ہوتے ہیں ۔
قرآن کریم کے مفسر نے اپنی گف و گو کو جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی : قرآن کریم موت کو نابودی و فنا نہیں جانتا ہے بلکہ موت دنیا سے برزخ کی طرف اور برزخ سے قیامت کی طرف ہجرت ہے ، موت فوت نہیں ہے بلکہ وفات ہے ، موت ایک وجودی امر اور مخلوق خدا ہے حیات کی طرح ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : انسان چونکہ موت کی وجہ سے دنیا کو ترک کرتا ہے اور ہم لوگوں کو رہا کر دیتا ہے تو ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ امر ایک عدمی مسئلہ ہے ؛ موت انسان کے لئے ایک دنیا سے دوسرے دنیا کی طرف انتقال ہے اور اس کے تمام کردار و اعمال و رفتا اس کے ساتھ ہیں اور ہر شخص کو اپنے نیک و برے اعمال کا جواب دینا ہوگا ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے اس استاد نے ایک مشہور و معروف روایت "من سنّ سنّه حسنه فله اجر من عمل بها، و من سنّ سنه سیئه فله وزر من عمل بها" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : قدس کے روز مظاہرہ و ریلی ، ہفتہ وحدت ، دہہ کرامت اور ان جیسے امور سنت حسنہ ہیں ، اگر کسی نے کوئی جدید کام کیا جس کی وجہ سے معاشرہ قرآن و عترت سے منسلک ہو جائے تو یہ سنت حسنہ ہے ؛ جب تک یہ سنت ہے اس کا اثر اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہے گا اور خدا نہ کرے اگر کسی شخص نے غلط و بری روایت کی بنا ڈالی تو اس کی برائی و حرمت اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ۔
انہوں نے اپنے تفسیر کے درس کو جاری رکھتے ہوئے آیہ شریفہ "اتَّبعوا من لا یسئلکم اجراً وهم مهتدون" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : الہی پیغمبروں نے اپنے تبلیغ و خدمت کے عوض میں اس کا بدلہ نہیں چاہا ۔ جو شخص کسی قسم کا لالچ نہ رکھتا ہو اور اس کی بات بھی اچھی ہو یعنی اس میں حسن فعلی بھی پائی جاتی ہو اور حسن فاعلی بھی تو اس کی اطاعت کرنا چاہیئے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے لوگوں کی سماجی وقار کو ان کے انفرادی وقار کے مقابلہ میں افضل ہونے کو غیر قابل انکار جانا ہے اور وضاحت کی : انسان کے کچھ اعمال و عبادات فردی ہیں کہ روز قیامت جس کے سلسلہ میں ان کو جواب دنیا ہوگا ؛ لیکن اس کے علاوہ اس پر کچھ سماجی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ سورہ مبارکہ جاثیہ «وَتَرَى کُلَّ أُمَّةٍ جَاثِیَةً کُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَى إِلَى کِتَابِهَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ» میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے ہم لوگوں کے لئے نماز و روزہ کے علاوہ بھی حکومت و حکام اور اپنے ملک کے سلسلہ میں کچھ سماجی ذمہ داری ہے کہ جس کے سلسلہ میں خاص توجہ دینی چاہیئے ۔