05 February 2014 - 21:39
News ID: 6406
فونت
ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سربراہ کا انتباہ؛
رسا نیوز ایجنسی - حجت الاسلام راجہ ناصرعباس جعفری نے حکومت پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا: خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت، طالبان کی نمائندگی کی بجائے عوام کی جان و مال کے تحفظ پر کام کریں ۔
ايم ڈبليو ايم پريس کانفرنس

 

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے جنرل سکریٹری حجت الاسلام راجہ ناصرعباس جعفری نے آج لاہور میں ہونے والی پریس کانفرنس میں طالبانی مذاکرات کیخلاف جمعہ کو ملک بھر میں مظاہرے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: طالبان کیساتھ مذاکرات آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہیں ۔


انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سیاسی طالبان اور قلمی دہشتگردوں کے ہتھکنڈوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے کہا:  مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل نے محب وطن کونسل کا اجلاس فروری کے پہلے ہفتہ میں طلب کر لیا ہے، جسکے نتیجہ میں ملک بھر میں طالبانائزیشن کے مقابلے میں عوامی تحریک کا آغاز ہوسکتا ہے۔


حجت الاسلام جعفری نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم پشاور میں مسجد و امام بارگاہ میں ہونیوالے خودکش حملے میں جاں بحق ہونیوالے دس پاکستانیوں کی شہادت اور اس بہیمانہ و دہشتگردانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں کہا : آج شہداء کے وارث یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک اور اسلام دشمن طالبان دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کرنیوالے پاکستان کی عوام کو بتائیں کہ آخر کتنے پاکستانیوں کا مزید خون درکار ہے اور آخر کتنے پاکستانیوں کے مزید قتل عام کے بعد امن قائم ہوگا؟ حکومت پاکستان نے مذاکرات کے نام پر طالبان دہشت گردوں کو پاکستانی شہریوں کے قتل عام کا لائسنس جاری کر دیا ہے اور ایک مرتبہ پھر پشاور ملت جعفریہ کے عمائدین کے خون سے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔


انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پشاور میں علی اصغر قزلباش کی شہادت کے بعد ولی اللہ پر حملہ کیا گیا اور پھر یکے بعد دیگرے تیسرے حملے میں ملت جعفریہ کے عمائدین کو خودکش دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا جانا خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہا : پاکستان کے ان تمام سیاسی و مذہبی قائدین سے سوال کرتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ آخر مملکت خداداد پاکستان میں کب تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے گی اور ملک و اسلام دشمن طالبان دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کے نام پر پاکستانیوں کو موت کی نیند سلایا جاتا رہے گا، حکمرانوں کی اپنی اولادیں ملک سے باہر عیش و عشرت کی زندگیاں بسر کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کے بیٹوں کو طالبان دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، ہم نے پہلے واضح کر دیا تھا کہ اگر کوئی دہشتگردی کا واقعہ رونما ہوا تو اس کے ذمہ دار حکومت اور مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد ہونگے، لہذا ہم اس تمام دہشت گردانہ واقعات کا ذمہ دار حکومت اور مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کو سمجھتے ہیں۔


مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ ہم خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ طالبان کی نمائندگی کی بجائے عوام کی جان و مال کے تحفظ پر کام کریں اور ان شہداء کے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری عمل میں لائی جائے، ورنہ وہ وقت اب دور نہیں کہ پاکستان کی عوام کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبانوں تک جا پہنچیں گے کہا: کیا طالبان سے مذاکرات کیلئے کوئی گارنٹی موجود ہے؟ ہیں تو وہ کون ہیں؟ کیا تحریری گارنٹی موجود ہیں؟ ہزاروں محافظین وطن کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے قتل کے مقدموں میں سزا یافتہ افراد کو قید کرنے کا کیا جواز ہے؟ قاتلوں کو عام معافی دیکر ملک کو بنانا ریپبلک بنانے کا اعلان کر دیا جائے، تاکہ جس کے پاس طاقت ہو وہ مذاکرات کے نام پر اپنے مطالبات منوائے اور قانون، عدلیہ اور آئین کا تصور ختم ہو کر رہ جائے، بتایا جائے ان مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ آئین پاکستان ریاستی قانون کو نہ ماننے والی کالعدم جماعتوں سے مذاکرات کو رد کرتا ہے۔

 

انہوں نے جانب اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ کیا طالبان سے مذاکرات کے نام پر دہشتگردی کو دی جانے والی رعایتیں اور مربوط معاملات ان کیمرہ نہیں ہونے چاہئے، کیا ان کی تمام تر تفصیلات میڈیا اور عام لوگوں کیلئے واضح نہیں ہونی چاہیں ؟ خفیہ مذاکرات چہ معنی دارد؟ دہشتگردوں سے مذاکرات کا دم بھرنیوالے مظلومین اور شہداء کی تشفی کیلئے کیوں نہیں جاتے؟ وارثان شہداء سے رائے کیوں نہیں لی جاتی؟ صرف دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کی رائے کیوں اہم ہے؟ امریکی پٹھو، عرب ممالک کے مسلسل دورہ جات اور طالبان کیلئے حکومتی نرم گوشہ کن مفادات کے پیش نظر ہے؟ کیا نام نہاد مذاکراتی عمل کا یہ دورانیہ متعین شدہ ہے؟ ہے تو کیا؟ نہیں ہے تو کیوں؟ وطن عزیز میں دہشتگردی کے سب سے بڑے شکار مکاتب فکر اور جماعتوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا کہا : ذکراتی ٹیم کا ماضی شیعہ دشمنی اور تعصب سے بھرا ہے، میجر عامر، شہید عارف حسین الحسینی کے قتل میں ملوث پایا گیا ہے، رستم مہمند 1988ء سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان جس میں دسیوں افراد شہید ہوئے تھے، کا مرکزی ملزم ہے۔

 

حجت الاسلام جعفری نے یہ کہتے ہوئے کہ مذہبی آزادی پر قدغن لگانا طالبان کا اعلانیہ مطالبہ رہا ہے، مذاکرات کے پردے میں مذہب کے نام پر ملک میں تباہ کن تبدیلیاں مقصود ہیں، جن کا ہدف طالبان کو حکومت میں شریک کرنا اور طالبان کے نظام کو قانونی شکل میں رائج کرنا ہے کہا: مجلس وحدت مسلمین اس تمام عمل کو پاکستان توڑنے کی عالمی سازش کا حصہ قرار دیتی ہے اور بھرپور عوامی حمایت کیساتھ فی الفور منظم اور بھرپور فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے، دہشتگردوں سے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے قانون، آئین اور عدلیہ کی بلادستی کو یقینی بنانے کا عہد کرتی ہے، اس سلسلے میں 2 فروری کو کوئٹہ میں عظیم الشان پیام شہداء و اتحاد امت کانفرنس پاکستان میں عوامی لائحہ عمل کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ اس کانفرنس میں سنی اتحاد کونسل، تحریک منہاج القرآن، اقلیتی نمائندے اور کئی دیگر پارٹیاں بھی شریک تھیں، عوامی قوت سے دہشتگردوں کو شکست دیں گے، جس کا عملی مظاہرہ ایک مرتبہ پھر ہنگو کی سرزمین پر شہید اعتزاز حسن نے کیا ہے۔

 

ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سربراہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم حسینی عزم سے یزیدیت کو شکست فاش دیں گے اور سیاسی طالبان اور قلمی دہشتگردوں کے ہتھکنڈوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے، چاہے ہمیں ہزاروں شہداء کے مقدس لہو کی قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑے کہا : مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل نے محب وطن کونسل کا اجلاس فروری کے پہلے ہفتہ میں طلب کر لیا ہے، جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں طالبانائزیشن کے مقابلے میں عوامی تحریک کا آغاز متوقع ہے، ایک درجن سے زائد جماعتیں محب کونسل میں شامل ہونے کیلئے رسمی طور پر آمادگی کا اظہار کرچکی ہیں، محب وطن قوتیں مل کر دہشتگردوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور آئندہ چند دنوں میں اس کا عملی اظہار ملک کے طول و عرض میں نظر آئے گا۔

 

انہوں نے صحافیوں سے اس بات کی گزارش کرتے ہوئے کہ حقیقی عوامی موقف کو پھیلانے میں ہمارا ساتھ دیں اور طالبان کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کریں، ہم ملک میں جاری شیعہ نسل کشی اور نام نہاد مذاکرات کیخلاف بروز جمعہ ملک بھر میں مظاہرے کریں گے کہا: طالبان دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کارروائی کے حق اور مذاکرات کے عمل کیخلاف عوامی ریفرنڈم کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس سلسلہ میں 2 فروری کو بلوچستان میں ریفرنڈم ہوچکا ہے۔ ہزاروں شہداء کے لواحقین نے مذاکرات کو ملک دشمنی قرار دیتے ہوئے رد کر دیا ہے۔ آئندہ ملک بھر میں عوامی تحریک کا اعلان کیا جاچکا ہے، جس کے مطابق 9 مارچ کو ڈیرہ اللہ یار بلوچستان، 16 مارچ کو اندرون سندھ، خیرپور میرس، آخر مارچ فیصل آباد اور اپریل میں سکردو میں عظیم الشان عوامی اجتماع ہونگے۔
واضح رہے کہ اس پریس کانفرنس میں سید ناصر عباس شیرازی، ابوذر مہدوی، حیدر علی موسوی اور سید فضل عباس بھی موجود تھے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬