رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی مرجع تقلید نے قرآن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سورہ مبارکہ یونس کی 62 وین اور 63 آیت کی تفسیر میں بیان کیا : جو شخص ایمان رکھتا ہے وہ اپنے دل میں خداوند عالم سے کسی بھی طرح کا خوف نہیں رکھتا ہے لیکن بعض وقت ممکن ہے کوئی شخص خوف ناک اور غمگین نہ ہو لیکن خوش بھی نہ ہو ، اولیاء الہی اور خدا والے اس طرح کے نہیں ہوتے ہیں اور ان کا تقوا اور ایمان ہمیشگی والا ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : ولی خدا کا ایمان و تقوا ہمیشہ ہے اور یہ وقت کے مطابق کم یا زیادہ نہیں ہوتا ہے اور جو شخص صاحب تقوا ہو وہ اپنے اور خدا کے درمیان فاصلہ نہیں دیکھتا ہے اس لئے ایسے شخص اپنے دل میں خداوند عالم کا خوف نہیں رکھتے ہیں ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے اظہار کیا : خداوند عالم کے ولی ہمیشہ صاحب تقوا ہیں اور جو لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں وہ زمین پر خدا کے ولی شمار کئے جاتے ہیں اور ولی خدا کا ایمان و تقوا کامل ایمان و تقوا ہے اور یہ ان کی خصوصیت میں سے ہے ۔
مرجع تقلید نے اس بیان کے ساتھ کہ بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کا ایمان شرک سے مشکوک ہے بیان کیا : مسلمان اور مومنیں میں سے زیادہ تر لوگ اس طرح کے ہیں جس کے ایمان کے کامل و ناب ہونے میں کمی ہے اور انسانوں میں صرف گنے چنے ایسے لوگ ہیں جو کہ خدا کے ولی ہیں جو اس طرح کا ایمان رکھتے ہیں ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے وضاحت کی : کفر کا اعلی ترین رتبہ یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کو اپنے تمام امور میں نہیں دیکھے اور خدا کے بجائے مختلف انسان سے اپنے مشکلات حل کرنے کی کوشش کرے ؛ انسان اس وقت گناہ میں گرفتار ہوتا ہے جب اپنے دل میں خدائی کا احساس کرنے لگے اور خدا پر توکل کرنے کے بجائے انسان سے توسل و توکل کرنے لگے ، جان بوجھ کر اس طرح کا نظریہ خداوند عالم سے شرک ہے ۔
انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ بشر کا گناہوں میں مبتلی ہونے کا اہم ترین سبب ربوبیت کا دعوا کرنا ہے بیان کیا : وہ لوگ کہ جن کا ایمان میانہ ہے وہ اپنے مشکلات کو حل کرنے کے لئے غیر خدا سے امید لگاتے ہیں اور اپنے مشکلات کو حل کرنے میں گناہ کا مرتکب ہوتے ہیں ، اگر کوئی شخص زبردستی خداوند عالم کے بجائے دوسروں سے امید لگاتا ہے تو اس کا شمار مشرک میں نہیں ہوگا اور خداوند عالم کے بارگاہ میں اس کا توبہ قابل قبول ہے لیکن ایسے شخص کا ایمان کامل و تمام نہیں ہے ۔