رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمھوریہ ایران کے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حسن روحانی نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی حکومت کے ہاتھوں آیت اللہ شیخ نمر باقر نمر کو پھانسی دئے جانے کو سنگین غلطی قرار دیا ۔
حجت الاسلام و المسلمین روحانی نے یہ کہتے ہوئے کہ انہیں امید ہے کہ دونوں دوست ممالک ایران اور اٹلی کے درمیان تعلقات کے فروغ سے دونوں ملکوں کےعوام، یورپی یونین اور پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا کہا : ایران یورپ تعلقات کے فروغ کے خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان کا دورہ اٹلی محض تجارتی نہیں تھا بلکہ ایران سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ایسی مشترکہ مصنوعات کی تیاری کا خواہاں ہے جو دنیا بھرمیں برآمد کی جا سکیں کہا : ایران اور اٹلی کے درمیان جو معاہدے طے پائے اور تعاون کے جس روڈ میپ پر اتفاق کیا گیا ہے اس سے نشاندھی ہوتی ہے کہ تہران اور روم کے درمیان تعلقات کے فروغ کے لیے ماحول پوری طرح سازگار ہے۔
ایرانی صدر مملکت نے روم کے روحانی پیشوا کے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے پوپ فرانسس سے ان کی ملاقات کو مذہبی اورروحانی بتایا اورکہا: دنیا میں مذہب کے بارے میں ہمارے نظریات میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے نیز دنیا سے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی نابودی کے حوالے سے بھی ہمارے نظریات یکساں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: پوپ فرانسس کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ آزادی بیان کے معنی یہ نہیں کہ دوسرے مذاہب کی توہین اور مذاہب کے درمیان دوریاں پیدا کی جائیں ۔
ڈاکٹر روحانی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار کے اس سوال کے جواب میں کہ ایک سعودی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایران کو سعودی سفارت خانے پر حملے کے سلسلے میں معافی مانگنی چاہئے کہا : معافی مانگنے کی بات کرنے والے سفارتی معاملات سے آگاہ نہیں ہیں۔ صدر نے استفسار کیا ایران کیوں معافی مانگے؟ کیا اس لیے کہ سعودی عرب میں آیت اللہ نمر کو سزائے موت دی گئی ہے؟ یا اس لیے کہ سعودی عرب دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے؟ یا اس لیے کہ سعودی عرب یمن کے عوام کو قتل کر رہا ہے؟ یا اس لیے کہ ہزاروں افراد اس سال حج کے موقع پر مارے گئے ہیں؟ ان معاملات کے سلسلے میں اگر سعودی حکومت سو بار بھی معافی مانگے، تب بھی کم ہے۔
انہوں نے یہ بتاتے ہوئے کہ سعودی حکومت عراق ، شام، لبنان اور یمن میں اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی پر شدید غصے کا شکار ہے تاہم ایران کشیدگی جاری رکھنا نہیں چاہتا، ایران سمجھتا ہے کہ کوئی بھی نیا اختلاف کام کو مزید مشکل بنا دے گا ، خطے کا استحکام دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہا: شام اور عراق میں امن قائم ہو اور دہشت گردوں کو باہر نکالا جائے۔ داعش ، تشدد، دہشت گردی اور یمن کے خلاف سعودی جنگ، خطے کی اہم ترین مشکلات ہیں جبکہ ہم خطے میں کشیدگی میں کمی کے خواہاں ہیں۔
ایرانی صدر مملکت نے آخر میں کہا: اطالوی ہم منصب اور وزیراعظم کو ایران کے دورے کی دعوت دی گئی ہے جس کا انہو ں نے خیر مقدم کیا ہے ۔
دوسری جانب ڈاکٹر حسن روحانی نے منگل کی رات اٹلی میں مقیم ایرانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: تہران اپنے اصولوں اور اقدار کا تحفظ کرتے ہوئے دنیا کے تمام ممالک بالخصوص یورپی ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ اگرایران نہ ہوتا تو دہشت گرد گروہوں کے بجائے آج دہشت گرد حکومتوں کا سامنا ہوتا کہا: یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا تہران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں ہے ۔
ڈاکٹر روحانی نے گذشتہ دنوں تہران اور اٹلی کے ساتھ تعاون کے چودہ معاہدوں پر دستخط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : دنیا، پابندیاں ہٹنے سے حاصل ہونے والے مواقع سے ملت ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے استفادہ کرنا چاہتی ہے اور یہ راستہ جاری رہے گا ۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے کہا : دہشت گردی اور تشدد کے خلاف جنگ میں اگر ایران نے سرگرم کردار ادا نہ کیا ہوتا تو شاید آج دنیا دہشت گرد گروہوں کے بجائے علاقے میں دہشت گرد حکومتوں سے روبرو ہوتی اور یہ دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ ہوتا ۔
ایرانی صدر مملکت نے مزید کہا: ایران کے بغیر علاقے کے مسائل حل نہیں ہوسکتے اور آج تمام بڑی طاقتوں کو اس کا اعتراف ہے ۔