تحریر: ثاقب اکبر
تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہو جانے والی شاہراہِ ریشم کے خدوخال ابھر رہے ہیں۔ مغربی چین سے لے کر یہ شاہراہ یورپ کی دہلیز تک جا پہنچے گی۔ اس کے قدیم ترین آثار دو سو سال قبل مسیح تک جا پہونچتے ہیں۔ چین میں اس وقت ’’ھان‘‘ خاندان کی حکومت تھی۔ پھر مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں چین تک رسائی حاصل کی۔ ایشیا اور افریقہ کے مابین اقتصادی روابط مزید فعال ہوگئے لیکن رفتہ رفتہ دنیا بدلتی گئی۔ مغرب نے مشرق پر یلغار کی تو پرانے راستے بارود کے دھوئیں اور گردوغبار سے اٹ گئے۔ حشیش کی فروخت پر پابندیوں کے جرم میں برطانیہ نے چین پر چڑھائی کردی۔ دنیا میں عظیم جنگیں برپا ہوئیں، پرانی شاہراہوں کے نام و نشان مٹنے لگے لیکن آج پھر دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ چین کی نئی باشعور قیادت نے قدیم تاریخی رابطوں اور راستوں کو زندہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ شاہراہِ ریشم کی نئی ساخت اور نئی دریافت کا نظریہ اس نئے شعور اور عصری شناخت سے جنم لیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اقتصادی راہداری کا منصوبہ اسی شعور کا ایک اظہار ہے اور چینی صدر کا مشرق وسطٰی کا حالیہ دورہ بھی شاہراہِ ریشم کو ریشمی سلیقے سے آگے بڑھانے کا وسیلہ سمجھا جا رہا ہے۔
چینی صدر مشرق وسطٰی میں پہلے مرحلے پر ریاض پہنچے، جہاں انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ 14 مختلف شعبوں میں سمجھوتوں پر دستخط کیے۔ ایک جوہری ری ایکٹر کی تعمیر کی یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے۔ 19 جنوری 2016ء کو چین کے صدر شی جین پنگ جب ریاض پہنچے تو ان کا پرتپاک غیر مقدم کیا گیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے دو طرفہ معاہدوں میں صنعت، توانائی، اعلٰی درجہ انرجی پیدا کرنے والے جوہری پلانٹ کے قیام، آرامکو کمپنی اور جمہوریہ چین کے ریسرچ واپ گریڈنگ سینٹر کے درمیان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی یاداشت، آرامکو اور چین کی پیٹروکیمیکل کمپنی SINOPEC کے درمیان یادداشت اور صنعتی شعبہ میں سرمایہ کاری کے علاوہ سیاحت اور ثقافت کے شعبوں میں باہمی تعاون کی یادداشتیں منظور کی گئیں۔ ان میں اہم ترین سعودی عرب چین سلک روڈ اکنامک بیلٹ کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملک اقتصادی ترقی میں باہمی تعاون کے لئے مغربی چین سے وسطی ایشیا اور وہاں سے یورپ تک سڑکیں، ریلوے لائنیں، ہوائی اڈے اور بندرگاہیں تعمیر کریں گے۔
سعودی عرب کے بعد چین کے صدر اپنے وفد کے ہمراہ مصر پہنچے، جہاں دونوں ملکوں کے مابین باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے 21 شعبوں میں تعاون کے معاہدے طے پائے۔ دونوں راہنماؤں نے تکنیکی اور معاشی امور سمیت مصر میں انتظامی امور کے لئے نئے دارالحکومت کی تعمیر اور سویز کینال کے گردونواح میں صنعتی زونز کے قیام کے لئے اتفاق کیا۔ چین نے مصر کے مرکزی بینک کو ایک ارب ڈالر امداد دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ شاہراہِ ریشم کا نظریہ یہاں بھی موضوع بحث رہا اور مصر نے اس منصوبے میں اپنی فعال شرکت پر آمادگی کا اظہار کیا۔ مصری وزیراعظم نے کہا کہ مصر چین کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کے نظریہ کی حمایت کرتا ہے اور وہ چین اور یورپ کے درمیان اقتصادی راہداری کے قیام میں تعاون کے لئے تیار ہے۔ کلی طور پر چین نے مصر میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔
چینی صدر اپنے دورے کے تیسرے مرحلے پر ہفتہ 23 جنوری 2016ء کو تہران پہنچے، جہاں انھوں نے ایرانی صدر حسن روحانی کے علاوہ ایران کے روحانی پیشوا آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔ اس دورے کے دوران میں دونوں ملکوں نے دو طرفہ تعلقات، اسٹرٹیجک شراکت داری، ٹرانسپورٹ، قابل تجدید توانائی، ریلویز، بندرگاہ، صنعت و تجارت اور سروسز کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
صدر حسن روحانی نے بتایا کہ دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو آئندہ دس سال میں 600 ارب ڈالر تک بڑھانے اور عراق، شام، افغانستان اور یمن میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف قریبی رابطہ رکھتے ہوئے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ہم ایران کے ساتھ دیرپا، پائیدار اور مستحکم تعلقات کے نئے باب کے متلاشی ہیں۔ چین ایران دوستی عالمی نشیب و فراز کے لئے ایک ٹیسٹ ثابت ہوئی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایران مشرق وسطٰی میں چین کا اہم پارٹنر ہے۔ چین ایران میں توانائی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے پرعزم ہے اور ہم خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قیام امن کے لئے ایرانی کوششوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس دورے میں چینی صدر نے ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مکمل رکنیت کی فراہمی کی بھی حمایت کی۔ دورے میں ایران اور چین کے درمیان پچیس سال پر مشتمل اسٹرٹیجک روابط کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے چینی صدر سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ ہم شاہراہِ ریشم کے نظریے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اقتصادی پابندیوں کے دوران میں چین نے جس طرح ایران کے ساتھ تعاون کیا، ہم اسے کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ چینی صدر کے ہمراہ آٹھ سو افراد کا وفد ایران کے دورے پر پہنچا تھا، جو تاریخی اعتبار سے کسی سربراہ مملکت کے ہمراہ کسی دوسرے ملک میں جانے والا سب سے بڑا وفد قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو چین کا اقتصادی راہداری کا نظریہ اصولی طور پر اب نہر سویز تک جا پہنچا ہے اور پاکستان سے لے کر مصر تک راستے میں پڑنے والے تمام بڑے ملکوں نے نہ فقط اس کی تائید کر دی ہے بلکہ چین کے ساتھ اس راہداری کے لئے درکار ضروری معاہدوں پر دستخط بھی کر دیئے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاض میں سعودی عرب نے چین کے ساتھ خلیج تعاون کونسل کے ایماء پر بھی مذاکرات کئے ہیں۔ پاکستان سب سے پہلے ایک عظیم الشان اقتصادی منصوبے کے عنوان سے چین کا شراکت دار بن چکا ہے۔ چین کی نظر افغانستان اور مرکزی ایشیا کی ریاستوں پر بھی ہے۔ اس کی حکمت عملی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے، جس کا فائدہ یقینی طور پر علاقے کے تمام ملکوں کو پہنچے گا۔ البتہ اس کے لیے تمام راستوں کا پرامن ہونا اور دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب چین ہمیں افغانستان کے ساتھ مذاکرات میں بھی نمایاں طور پر دلچسپی لیتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی چین امن و دوستی کی راہ اختیار کرنے کا متمنی ہے کیونکہ بے امنی سے یہ تمام منصوبہ خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ وہ ممالک جو اس منصوبے کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں، ان کے لئے بھی اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف حقیقی طور پر صف آرا ہو جائیں اور اسے ختم کرکے امن و سلامتی اور استحکام کی فضا قائم کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پہنچنے والی شاہراہِ ریشم کو ایران سے ہو کر گزرنا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایران اور عرب معاملات میں نہ فقط غیر جانبدار ہو بلکہ ایک مخلص بھائی کا کردار ادا کرے۔ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کا جو ڈول ڈالا ہے، وہ پاکستانی قیادت کے اسی فہم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے دوستوں کو خطرناک معاملات سے ہاتھ نکالنے کا مشورہ دے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کی گرم جوشی کا کوئی اچھا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس کے باوجود پاکستان کی قیادت کو مایوس نہیں ہونا چاہیے اور سعودی عرب میں اپنے دوستوں کو سمجھانا چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد بھڑکائی گئی آگ کو خاموش کرنے کی کوشش کرے اور سعودی عرب میں برسراقتدار آنے والی نسبتاً غیر تجربہ کار قیادت مسائل پر جذباتی ردعمل سے پرہیز کرے۔ دوستی کا ایک حق اچھا مشورہ دینا بھی ہے۔
دوسری طرف ہم ایک عرصے سے عالمی دباؤ یا اپنے بعض دوستوں کی خواہش پر ایران کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان جیسی باوقار مملکت کے لئے یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے برادر ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیں۔ اس کا آغاز پہلے سے طے شدہ گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد سے ہونا چاہیے۔ یقینی طور پر یہ پائپ لائن شاہراہِ ریشم کا ناگزیر حصہ ہے۔ آج جب کہ دنیا کے تمام اہم ملک ایران کے ساتھ اپنے دوستانہ اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے سرگرم عمل ہیں، پاکستان کو بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ دوستی دونوں ملکوں کے عوام کے لئے خیر کا پیغام رکھتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے کہ ایران بہت تیز رفتاری سے ابھرتی ہوئی اقتصادی اور سیاسی طاقت ہے۔ دونوں ملکوں کی دوستی دونوں کو مزید طاقتور بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ جولائی 2015ء کے اواخر میں جب ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ ہوا تھا تو اسی وقت یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ مستقبل میں خطے میں ایران ایک اہم طاقت کے طور پر ابھرنے والا ہے۔
چنانچہ 22 جولائی 2015ء کو ہم نے ایک کالم ’’ایران جوہری معاہدہ اور پاک ایران تعلقات کا مستقبل‘‘ کے زیر عنوان سپرد قلم کیا تھا جس میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا: ’’ہمیں موجودہ حالات میں ایران کی حیثیت کا ادراک ضرور کرنا چاہیے۔ جب تمام بڑی طاقتیں ایران پر پابندیاں اٹھا کر اس سے تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں تو اس کی ضرور کچھ وجوہات ہیں، جن کا علم ہمارے سیاستدانوں، سفارتکاروں اور تجزیہ نگاروں کو ہونا چاہیے۔ پاکستان حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بنا ہے اور روس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات دن بدن بہتر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے روسی صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے۔ ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ان کے حالیہ دورہ روس میں جس طرح کا پروٹوکول دیا گیا ہے، وہ بھی پاک روس تعلقات کے مستقبل کی شکل گیری کو ظاہر کر رہا ہے۔ روس ایران تعلقات پر بھی ہمیں نظر رکھنی چاہیے۔ بھارت بھی ایران کے ساتھ اپنے روابط کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ایران خطے کی ایک بڑی فوجی اور اقتصادی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ پاکستان نے حکومتی سطح پر خلیجی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اختیار کرکے اور چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے عظیم معاہدے پر دستخط کرکے اپنی مستقبل کی پالیسی کے خدوخال واضح کر دیئے ہیں۔ ان حالات میں ایران کے ساتھ ہمیں دوسروں سے بڑھ کر تعلقات کے نہ فقط قیام کی ضرورت ہے بلکہ دوسروں سے زیادہ ہمارے لئے اس کے امکانات بھی موجود ہیں۔ جو بات ہمارے دشمنوں اور دنیا کی بڑی قوتوں کو دکھائی دے رہی ہے، ہم اسے ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتے۔"
افسوس عملی طور پر پاکستان نے ان امکانات پر ویسی توجہ نہیں دی جیسی دی جانا چاہیے تھی۔ توقع کرنا چاہیے کہ اب پاکستان کے اہل حل و عقد اس موضوع پر زیادہ گہرائی سے غور کریں گے۔ چینی صدر نے مشرق وسطٰی کے حالیہ دورہ میں ایران کو جس قدر اہمیت دی ہے، اسے پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ روس اور ایران کے تعلقات گذشتہ چند ماہ میں اسٹرٹیجک بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ اقتصادی اور تجارتی حوالے سے بھی خاصے آگے بڑھے ہیں۔ گذشتہ آٹھ ماہ میں 150 بلند مرتبہ غیر ملکی وفود تہران میں اترے ہیں، جنھوں نے مختلف شعبوں پر ایران کے ساتھ اقتصادی حوالے سے قراردادوں پر دستخط کئے ہیں۔ ثقافتی اور سیاسی امور پر بھی ایران کی پیش رفت جاری ہے۔ روسی صدر کے دورہ تہران کے علاوہ بھی دونوں ملکوں کے اعلٰی سطحی وفود کے تبادلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ روس نے ایران میں دو جوہری ری ایکٹر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایران مستقبل قریب میں شنگھائی تعاون تنظیم کا بھی رکن بن جائے گا، جس کا پاکستان پہلے ہی رکن بن چکا ہے۔ اس طرح سے مزید ایک عالمی فورم پر دونوں ملک اکٹھے ہو جائیں گے۔ جیسا کہ ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات کی پیش رفت میں ایران کی طرف سے کمی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی ماضی میں ’’مجبوریاں‘‘ رہی ہیں۔ ایران اپنے حصے کی گیس پائپ لائن کب کی تعمیر کرچکا ہے، پاکستان کو اب اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کرنا ہے۔ ایران کی گیس پائپ لائن جو پاکستان کی سرحد تک پہنچ چکی ہے، اسے ایران کا بڑھا ہوا دوستی کا ہاتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں سے یہی گذارش کرسکتے ہیں کہ آئیں دوستی کا بڑھا ہوا یہ ہاتھ تھام لیں۔ پاکستان جو اس وقت شدید انرجی کرائسیز کا شکار ہے، اس کے لئے یہ یقینی طور پر آسان راستہ بھی ہے۔ ویسے بھی شاہراہِ ریشم کو آگے بڑھنا ہے، ہمیں بھی اسے ریشمی انداز سے آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔