رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ہنگامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ کے اہم رکن سید عباس عراقچی نے کہا : افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اوآئی سی نے عالم اسلام کے بڑے بحرانوں اور چیلنجوں خاص طور پر فلسطین کے مسئلے میں تو خاموشی اختیار کررکھی ہے لیکن وہ تہران میں سعودی عرب کے سفارتخانے پرحملے کے بارے میں فوری طور پر رد عمل کا اظہارکرتی ہے ۔
انہوں نے تہران اور مشہد میں سعودی عرب کے سفارتخانے اور قونصل خانے پر بعض خود سر مظاہرین کے حملے کے بعد ایران کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا : اسلامی جمہوریہ ایران نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے حملے کرنے والوں کی شناخت اور انہیں سزا دینے کےلئے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور جلد ہی نتائج کا اعلان کردیا جائے گا ۔
عراقچی نے مزید کہا: فلسطینی حکومت گذشتہ ایک برس سے مسجد الاقصی پر صیہونیوں کے حملوں کے تعلق سے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کررہی ہے لیکن ابھی تک اس کی اس درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔
انہوں نے او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کو تعمیری سفارتکاری اور مذاکرات کا نتیجہ قراردیا اور کہا : ایک کامیاب نمونےکے طور پر ان مذاکرات کے تجربے سے عالم اسلام کے اختلافات اور تنازعات کے حل کے لئے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
انہوں نے اسلامی اتحاد وبھائی چارے کی تقویت اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے تعلق سے ایران کی پالیسی کا ذکرکرتے ہوئے کہا: بات چیت اور افہام و تفہیم کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اعلان آمادگی کا مثبت جواب نہیں دیا گیا جو افسوسناک امر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بعض ممالک علاقے میں کشیدگی کو کم نہیں کرنا چاہتے اورانہوں نے محاذ آرائی کا راستہ اپنا رکھا ہے ۔
واضح رہے کہ جدہ میں او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کے موقع پر ایرانی وزارت خارجہ کے اہم رکن سید عباس عراقچی نے او آئی سی کے جنرل سکریٹری اور اجلاس میں شریک مختلف ملکوں کے وزرائے خارجہ من جملہ انڈونیشیا، ملیشیا اور پاکستان کے وزرائے خارجہ سے الگ الگ ملاقاتیں کی ۔