رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی اخبار نیشن نے لکھا ہے کہ امریکہ، یمن میں انسانی المیے میں سعودی عرب کا اتحادی ہے اس لئے وہ قانونی طور پر یمن میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔
اس اخبار کے مطابق سعودی عرب، امریکی مدد و حمایت کے بغیر حملے کرنے یا نہ کرنے پر قادر نہیں ہے مگر یمن پر جارحیت میں امریکہ اور سعودی عرب کی شراکت پر توجہ نہیں دی گئی ہے اور یہ شراکت تنقید سے بچی رہی ہے۔
اس اخبار نے دو ہزار چودہ میں یمن میں جنگ کے آغاز، انصاراللہ کی جانب سے صنعا کا کنٹرول سنبھالے جانے، سعودی حمایت یافتہ مستعفی صدر منصور ہادی کے فرار اور انصاراللہ کے خلاف جنگ کے لئے سعودی عرب سے منصور ہادی کی درخواست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب، جو ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بناء پر علاقے میں امریکی طاقت کو زوال سے دوچار سمجھ رہا تھا، یمن میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر اتر آیا۔
یمن میں سعودی عرب کا مقصد جنوبی یمن سے انصاراللہ کو پیچھے ہٹانا، منصور ہادی کو برسر اقتدار لانا، اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے مقامی قبائل کو متحد کرنا اور صنعا سے انصاراللہ کا کنٹرول ختم کرانا تھا اور ان مقاصد کے لئے اس نے یمن کو اپنی ہمہ جہتی جارحیت کا نشانہ بنایا اور عام شہریوں کا قتل عام کیا مگر جب انصاراللہ نے استقامت کا مظاہرہ کیا اورسعودی عرب کو شکست ہونے لگی تو انصاراللہ سے مذاکرات اور مسائل کے حل کے لئے کوئی اور قدم اٹھانے کے بجائے اس نے فضائی حملے تیز کر دیئے اور ریاض کے دعوے کے برخلاف رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہری شہید ہوئے۔ خود اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ جنگ یمن کے آغاز سے اب تک چار ہزار ایک سو پچّیس عام شہری مارے جا چکے ہیں۔
سعودی عرب نے آٹھ اکتوبر کو صنعا میں ایک مجلس عزاء کے مقام پر بھی بمباری کی اور سو سے زائد افراد کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا جس پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی برہمی کا اظہار کیا اور اس حملے کے بارے میں تحقیقات کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یمن کے رہائشی علاقوں پر سعودی اتحاد کی جانب سے کی جانے والی بمباری اور حملوں میں امریکی بم اور ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں جس کی رو سے یمن میں جرائم کے ارتکاب میں امریکہ بھی شریک ملک سمجھا جاتا ہے۔ امریکی شرکت سے یمن پر کئے جانے والے حملوں میں رہائشی علاقوں کے علاوہ اسکول و مدارس اور ہسپتالوں اور اقتصادی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ خود امریکی رکن کانگریس ٹیڈ لیؤ نے یمن میں امریکہ کی فوجی مداخلت پر اعتراض کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ اور دفاع کو مراسلہ ارسال کیا اور لکھا کہ امریکی فوجیوں کو جنگی جرائم کے ارتکاب کی بناء پر ممکنہ طور پر تفتیش اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹیڈ لیؤ نے لکھا ہے کہ امریکہ نے یمن پر سعودی جارحیت میں اس ملک کا ساتھ دے کر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اس لئے اسے اخلاقی اور قانونی طور پر جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے وہ بھی ایسے جنگی جرائم کہ دانستہ طور پر جن کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔/۹۸۸/ن۹۴۰