تحریر: سید اسد عباس
محمد عمر افغانستان کے صوبے قندھار میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑھا۔ اس نے سکول کا منہ نہ دیکھا، فقط مدرسے میں چند ماہ گیا اور پھر اسے جنت کی راہ یعنی شہادت کا راستہ مل گیا۔ محمد عمر جس نے افغانستان کے صوبہ قندھار میں اپنے گاؤں کی دیواروں کے علاوہ کوئی جگہ نہ دیکھتی تھی، اچانک پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں واقع سید عثمان مروندی کی درگاہ سیہون شریف پہنچا اور وہاں اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں دسیوں انسان بے جرم قتل ہوئے اور سینکڑوں زخمی۔ اس کہانی میں ایک تو حقیقی واقعہ ہے، جو گذشتہ دنوں سندھ میں ایک صوفی بزرگ کی درگاہ پر وقوع پذیر ہوا، نیز اسی طرح کے واقعات ملک کے دیگر شہروں میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں جبکہ دوسرا مفروضہ ہے، جو ان واقعات کے مجرم تک پہنچنے کے لئے اپنایا جاتا رہا یا اپنایا جا رہا ہے۔ مفروضہ یہ کہ دہشت گردی کے یہ واقعات افغانستان سے کروائے جا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں رہنے والا نو عمر محمد عمر پاکستان کے صوبہ سندھ میں اپنے ہدف تک پہنچا کیسے۔؟ آسمان سے گرا یا زمین سے نکلا؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی علاقے سے انجان شخص بالکل درست طریقے سے اپنے ہدف تک پہنچ جائے اور باآسانی اپنا کام کرکے ملک کی ایک بڑی آبادی کو کرب میں مبتلا کر دے۔
میں ایک پاکستانی ہوں، زندگی کا زیادہ حصہ اسی دھرتی پر گزرا، تاہم آج تک سیہون شریف نہیں گیا۔ اگر میں سیہون شریف جانے کا ارادہ کروں تو مجھے اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے بہت سی معلومات درکار ہوں گی۔ گاڑی کون سی جاتی ہے، کتنے بجے نکلتی ہے، کرایہ کتنا لگے گا، سیہون اتر کر کس جانب جانا ہے، وہاں رہنا کس جگہ ہے، یہ وہ سوالات ہیں جو کسی بھی دوسرے شہر میں جانے والے اجنبی شخص کو درپیش ہوتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی ایسے سفر میں جو ہمیں پہلی مرتبہ انجام دینا ہے، کوئی ایسا شخص ہمراہ ہو جو علاقے سے واقف ہو یا کوئی ایسا دوست اس شہر میں موجود ہو، جو ہمیں ان تمام مشکلات سے بچا سکے۔ اگر مجھے اس علاقے کی زبان، ثقافت کا علم نہ ہو تو یہ مسائل دو چند ہو جاتے ہیں۔ اب تصور کریں کہ اگر ساتھ بارود کا ایک تھیلا بھی ہو تو سیہون کے دربار تک پہنچنا کس قدر کٹھن کام ہے۔ یہ کام مقامی افراد کی راہنمائی، سہولت کاری اور مدد کے بغیر ناممکن ہے۔ہماری حکومتیں اور ادارے اس عام فہم سی بات کو تسلیم کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مخبری، مدد مقامی طور پر ہی فراہم کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے افغانستان اور پاکستان کے ان دہشت گردوں کے مابین اتنے مضبوط روابط، اڑتی چڑیوں کے پر گننے والوں سے کیسے محفوظ ہیں؟ ہر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کا کیا بنا۔؟ اگر ملک دشمن عناصر اتنی آسانی سے اور اتنے منظم انداز میں اپنے اہداف کو ملک کے طول و عرض میں حاصل کر رہے ہیں تو اس سے مراد تو یہی ہے کہ ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان نے دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑا۔
دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اگر مسمار ہوچکی ہوتیں تو کیسے کوئی دہشت گرد اتنی آسانی سے لاہور، کوئٹہ اور سیہون کو چند دنوں کے وقفے سے ہدف بناتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ایسی کارروائی کا سہولت کار یا مخبری فراہم کرنے والا فرد بھی کوئی عام انسان نہیں ہوتا۔ وہ ایک نظریاتی کارکن ہوتا ہے، جو اپنے زعم میں اعلٰی مقاصد کے حصول کے لئے مدد یا مخبری فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کسی کا خیال ہو کہ پیسوں سے سہولت کار کا حصول ممکن ہے، تاہم کون ان افراد کا تعین کرتا ہے، کون ان تک پیسے پہنچاتا ہے، ان سب کاموں کے لئے بہت سا عزم اور ارادہ درکار ہے، جو نظریاتی ملازموں سے ہی ممکن ہے۔ یہ نظریاتی کارکن کیا آسمان سے اترتے ہیں؟ بالکل نہیں، یہ ہمارے اسی معاشرے کے لوگ ہیں، جو ہماری اور ہمارے گہری نگاہ رکھنے والے اداروں کے سامنے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ افراد کیسے افغانستان یا کسی اور ملک میں بیٹھے دہشت گردوں سے ارتباط پیدا کرتے ہیں، کیسے وہاں سے بارود کو یہاں تک پہنچاتے ہیں، کیسے کسی واقعہ کی پلاننگ کرتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب حاصل کئے بغیر ان حملوں کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ عام پاکستانی کے ذہن میں یہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب پر کام کرنے والے ادارے اسی نہج پر کام کر رہے ہیں اور گذشتہ چند برسوں کے امن و سکون سے ایسا لگا کہ ان اداروں کو اپنے اہداف میں کامیابی بھی مل رہی ہے، تاہم اچانک سے سب خواب چکنا چور ہوگئے اور پاکستانیوں کو چند دنوں میں معلوم ہوگیا کہ دہشت گرد اب بھی منظم ہیں، ان کی کمین گاہیں اب بھی محفوظ ہیں، ان کے سہولت کار اب بھی معاشرے میں اپنا شکار تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ناکامی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟
کسی ہمسائے پر ان واقعات کی ذمہ داری ڈالنا نہایت آسان کام ہے۔ ممکن ہے ان کا ہاتھ ہو بھی، تاہم دشمن سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اگر دشمن نے یہ کام نہیں کرنا تو کیا دوستوں سے اس کام کی امید رکھی جائے۔؟ ملک میں امن و امان پر یقین رکھنے والی مذہبی قوتیں نیشنل ایکشن پلان کی ابتداء سے اس پر تحفظات کا اظہار کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے پردے میں لاوڈ سپیکر پر پابندی اور گرفتاریاں، درود وسلام کی محافل کے خلاف اقدامات، جلوس ہائے عزا اور مجالس پر پابندیوں سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ ذمہ دار اداروں کو دہشت گردوں کے سلیپنگ سیلز کے خلاف حقیقی اقدام کرنا ہوگا۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ شاید یہ دینی گروہ اپنی جان بچانے کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں، تاہم آج ان کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ گذشتہ دنوں کے چند واقعات نے ثابت کیا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار تو جہاں چاہتے ہیں، جب چاہتے ہیں، اپنا ہدف حاصل کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بھی نیشنل ایکشن پلان کو اس کی حقیقی روح کے مطابق رو بہ عمل لایا جائے اور ملک دشمن عناصر اور ان کے سہولت کار خواہ کسی مقام پر ہی کیوں نہ ہوں، سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، تاکہ اہلیان وطن کو کم از کم امن و سکون کے ساتھ زندہ رہنے کی سہولت تو دستیاب رہے۔ ملک میں بدامنی یقینی طور پر ہمارے معاشی قتل کے بھی مترادف ہے۔ خداوند کریم وطن عزیز پاکستان کو ہر طرح کی مشکل اور مصیبت سے محفوظ رکھے اور ملک کے اداروں کو وطن کی حقیقی معنوں میں بہتری کی توفیق مرحمت فرمائے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز