تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
عزتوں کا راستہ بھی ازل سے ہے ذلتوں کی داستان میں ابتدا سے ہے اور عزت و ذلت کی یہ دو راہیں قیامت تک رہیں گی اس لئیے کہ بندگی پروردگار اور اس کی نا فرمانی کا دستور ابتدا سے ہے انسان کو اختیار حاصل ہے کہ بندگی کی راہوں پر گامزن ہو کر صاحب عزت بن جائے یا پھر اللہ کی نافرمانی کی راہ پر چلتے ہوئے ذلیل و خوار ہو جائے ۔حسینیت وہ راستہ ہے جو بتاتا ہے کہ بندگی پروردگار ہر حال میں کر کے کس طرح صاحب عزت و سر بلند ہوا جاتا ہے یزیدیت وہ راہ ہے جو بتاتی ہے اپنے نفس کی بندگی کے بعد کس طرح انسان ذلیل و خوار ہوتا ہے ۔
حسینیت مساوی ہے عزت و سربلندی سے یزیدیت یکساں ہے ذلت و خواری کے ساتھ آج بھی ذلت و خواری و ہر اس جگہ نظر آئے گی جہاں یزیدیت کی پرچھائیاں ہیں اور آج بھی عزت و سر بلندی وہاں نظر آئے گی جہاں حسنیت کے سایے ہیں آج ہر اس مقام پر امت مسلمہ ذلیل و خوار ہے جہاں یزیدیت کے عناصر کار فرما ہیں اور آج بھی ہر اس جگہ امت مسلمہ ہی سے متعلق ایک دھڑا اور وہ گروہ سر بلند و با عزت ہے جس نے حسنیت کی راہ پر قدم رکھے اورحسنینت کی قدروں کی پاسداری ہے ۔یقین نہ آئے تو اسلامی مزاحمت کے محاذ کو دیکھ لیں ، امریکہ ، اسرائیل کی پشت پناہی میں عالمی سامراج مل کر بھی ایک چھوٹے سے سربلند گروہ کو سر نگوں نہیں کر سکا ،اور آج حزب اللہ پہلے سے زیادہ صاحب وقار و سربلند ہے اور جہاں یہ حسینی عزت نہیں ہے وہاں آپ دیکھیں کہ کس طرح ازل سے مسلمانوں کا عناد رکھنے والے صہیونیوں کے ساتھ مل کر حرم الہی کے نام نہاد رکھوالے اپنی عزت کو نیلام کرتے ہوئے یمن میں اپنے ہی بے یارو مددگار کلمہ گو بھائیوں کا قتل عام کر رہے ہیں ، اور دنیا میں ان شاہان عرب کی اوقات کیا ہے؟انہیں دنیا میں کن نظروں سے دیکھا جاتا ہے ، آیا حرم الہی کے پاسداروں کی صورت یا عالمی سامراج کے دم چھلوں کی صورت جنکا کام سامراجی طاقتوں کے سامنے اپنی دم ہلانا ہے اور بس ۔
یہ بات محض شاہان عرب سے مخصوص نہیں بلکہ اگر آج ہم اپنے چاروں دہکتی آگ اور خون کے سمندروں کو دیکھ رہے ہیں اور امت مسلمہ مجموعی طور پر تضحیک و تشنیع کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی بڑی وجہ پیغام حسینت کو طاق نسیاں پر رکھ دینا ہے اس لئیے کہ جہاں جہاں یہ حسینی فکر انسانی رگ و ریشہ اور انسانی جسم میں حرکت کرتے ہوئے لہو کا حصہ بن گئی وہاں انقلاب کی آہٹ سنائی دیتی نظر آتی ہے وہاں عزت و سربلندی کے جل ترنگ کانوں میں رس گھولتے ہیں چنانچہ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور بڑی طاقتوں کے سامنے اسکا استقلال اس بات کی دلیل ہے حسینیت وہ منارہ عزت ہے جہاں سے حریت پسندی، مردانگی ، شجاعت اور حق کی نصرت کی اذان دی جاتی ، اور اسی بنا پر ذلتوں کے دیوں کی پجاری استبدادی فکر کے حامل خواہشات نفس کے غلام ہر وقت حسینیت سے خوف کھائے رہتے ہیں ، کیونکہ حسینی فکر انکے استبدادی پایوں پر قائم ذلیلانہ حکومت کے محلوں کو ڈھا سکتی ہے اسی لئیے ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ حسینی فکر دنیا میں نہ عام ہونے پائے اور عزت حسینی کا سبق قومیں نہ سیکھ سکیں کہ انکے اندر عزت نفس جاگ گئی اور انہوں نے عزت و سربلندی کی خاطر قربان ہوجانے کو اپنےلئیے کمال سمجھ لیا اور جھوٹے عزت کے دعویدار ذلیل بہروپیوں کی قلعی کھولنے لگے تو ان کا سارا حساب کتاب بگڑ جائے گا لہذا ان کی کوشش ہے کہ حسینیت کا وہی رخ لوگوں کے سامنے پیش کریں جسکا تعلق تاریخی واقعات اور ایسی احادیث سے ہو جن کا عمل سے کوئِی تعلق نہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ حسنینت کا وہ رخ عام ہو جائے جس کے آئینہ میں قومیں اپنے رخِ حیات کی کو سنوار کر آگے بڑھنے لگے اور عزت و سربلندی کا وہی درس خود بھی سیکھ لیں جہاں ظالم سر کاٹ کر بھی سرنگوں رہتا ہے اور عزتوں کے وارث حسین کا سر کٹ جانے کے بعد بھی سربلند رہتا ہے ،جہاں یزید کے ساتھ ابن زیاد ،و شمر و عمر سعد اپنے ہاتھوں میں اقتدار ہونے کے باجود آل رسول کو ہر طرح سے ذلیل کر دینے کا خواب لیکر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتے ہیں آل رسول کو ذلیل کرنے والے خود ذلیل ہوجاتے ہیں لیکن اسراء اھلبیت جہاں جہاں سے گزرتے ہیں عزتوں کے چمن کی آبیاری کرتے ہوئے درس عزت و سربلندی دیتے ہوئے گزرتے ہیں اور تاریخ میں منارہ عزت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔ لہذا آج ہر دور سے زیادہ ضروری ہے کہ اس حسینی راہ عزت و سر بلندی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس پر چلنے کے بعد ہتھکڑی اور بیڑیوں میں جکڑے رہنے اور پابند سلال رہنے کے بعد بھی سید سجاد عزیز رہتے ہیں جبکہ پابند سلال بنانے والے یزید و ابن زیاد و ان کے گماشتے ذلیل ہو جاتے ہیں ،وہ راہ عزت حسینی جس پر چل کر پس گردن بندھے ہاتھوں کے بعد بھی دربار ابن زیاد میں زینب عزیز رہتی ہے لیکن تخت حکومت پر بیٹھا ہوا ابن زیاد اپنے ہی درباریوں کے سامنے ذلیل ہو جاتا ہے ۔ یقینا عزت حسینی کی راہ کی صحیح شناخت ہماری تقدیر بدل دینے میں معاون ہوگی کہ اسی راہ میں عزت کے حقیقی مفہوم کی وضاحت ممکن ہے اور اسی راہ میں عزت کے مختلف وہ پہلو سامنے آ سکتے ہیں جن کے بغیر حقیقی عزت کا ادراک ممکن نہیں اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں عنصر عزت اور مفہوم سر بلندی کو سر کٹا کر جس انداز سے پیش کیا ہے اس کی نظیر نہ کربلا سے پہلے ملتی ہے نہ اس کے بعد بقول استاد ڈاکٹر نعمت اللہ صفری :''اگر ہرا مام کی زندگی میں انکی صفت کمال کی تجلی کو ایک لقب دے دیا جائے تو حسین کو حسین عزیز کہا جائے گا اس لئیے کہ قیام امام حسین علیہ السلام میں عزت طلبی عنصر اس طرح کار فرما ہے کہ اس واقعہ کے سلسلہ سے نقل ہونے والی رایتوں اور تاریخی مندرجات کو اسی عنصر عزت کے ملاک اور معیار پر پرکھا جا سکتا ہے اور ان تاریخی بیانات کو اخذ کیا جا سکتا ہے جو عنصر عزت کے محور پر ہیں ،، 1
عزت کے معنی :
کلمہ عزت اصل میں ایک مستحکم ناقابل شکست اور مضبوط شئے کے معنی میں ہے اسی لئے ابتدائی طور پر یہ کلمہ جمادات کی توصیف کے لئے استعمال ہوتا تھا جیسا کہ کہاجاتا تھا’’اَرْضٌ عِزَازٌ‘‘ یعنی مضبوط و سخت زمین 2 یہ لفظ عَزَ۔یَعِزُّ، ضَرَبَ یَضْرِبُ‘‘ سے ہے کہ جو کلام عرب میں؛ عزیز ہونے‘ قوی و مضبوط ہونے کے معنی میں مستعمل ہے ابتداء ۔ 3 راغب نے اسکے سلبی معنی یوں کئے ہیں " اَلْعِزَّۃُ حَالَۃٌ مَالِغَۃٌ لِلْاِنْسَانِ مِنْ اَنْ یَغْلَبُ "عزت ایک ایسی حالت ہے کہ جوباعث بنتی ہے کہ انسان پرکوئی غلبہ حاصل نہ کرسکے 4 ۔ معروف لغت لسان العرب میں عزیز کی تعریف کچھ یوں ہے : ھوالممتنع فلایغلبہ‘ شءے،،عزیز ایسی ذات کو کہتے ہیں جو اپنے اوپر غلبہ پیدا نہیں ہونے دیتی 5 ۔ ان تمام معانی کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں عزت درحقیقت ایک ایسی حالت ہے جس کے بموجب انسان سربلندی حاصل کرتا ہے اور کبھی شکست نہیں کھاتا جبکہ اس کے بالکل مقابل ذلت کا مفہوم ہے اور اس کے معنی نرمی و نفوذپذیری کے ہیں 6 ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عزت کو گوہر نایاب کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ ہر جگہ ہاتھ نہیں آتی اور وہیں ملتی ہے جہاں انسان بندگی کی حدوں کو نہیں لانگتا اور حدود بندگی کی پاسداری و نگہداشت آسان نہیں ہے چنانچہ صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ کلمۂ عزت، نایابی کے مفہوم کو بیان کرتا ہے لہذا جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز عزیز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ہے۔ 7
مکتب حسینت کا کمال یہی ہے کہ وہ چیز جسکا حصول آسان نہیں اس مکتب کا لازمہ ہے ،یہاں جو چیزمشکل ہے وہ ذلیل ہونا ہے اس لئے کہ عزت کے بغیر اس مکتب میں زندگی کے معنی ہی نہیں ہیں چنانچہ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں : ما اھون الموت علی سبیل العز و احیاء حق ، لیس الموت فی سبیل العز الا حیاۃ خالدۃ و لیست الحیاۃ مع الذل الا الموت الذی لا حیاۃ معہ 8 راہ عزت و احیاء حق کے لئے مرنا کتنا آسان ہے ، عزت کی راہ میں موت زندگی جاودان کے علاوہ اور کچھ نہیں اور ذلت کی زندگی اس موت سے عبارت ہے جسکے ساتھ حیات کا کوئی تصور نہیں ، لَيْس شَأني شأن مَن يَخاف الْمَوْت ، ما اهْوَن الْمَوْت عَلَي سَبيل نِيْل الْعِزّ و إحْياء الْحَق۔، میری یہ شان نہیں کہ موت سے ڈر جاون ، موت کس قدر خوشگوار ہے اگر راہ عزت و احیاء حق کے لئے ہو۔
آج جب ہم ولادت امام حسین علیہ السلام کی خوشیاں منا رہے ہیں تو ہمیں اپنا ایک محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی کونسی زندگی ہے کیا ہماری زندگی وہ ہے جسے حسینی کہا جا سکے ، یا پھر ہماری زندگی ان ذلتوں کے سایہ میں گزر رہی ہے جن کے لئے حسین آواز دیتے ہیں ھیات منا الذلہ ۔ /۹۸۸/ ن۷۰۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے :
1 ۔ نعمت اللہ صفری فروشانی ،عزت طلبی در نھضت امام حسین ، حکومت اسلامی ،سال ہفتم ، شامرہ چھارم ص ۷۹
2 ۔ معجم مفردات الفاظ قرآن۔ راغب اصفہانی۔ ، تحقیق ندیم مرعشی، دار الکتاب العربی ،چاپ بیروت، ص ۳۴۴۔
3 ۔۔ المنجد، کلمہ عز ۔
4 - معجم مفردات الفاظ قرآن۔ راغب اصفہانی۔ ، تحقیق ندیم مرعشی، دار الکتاب العربی ،چاپ بیروت، ص ۳۴۴۔
5 ۔ ابن منظور جلد ،لسان العرب۔ ۹۔ص ۱۸۵، تحقیق علی شیری ، چاپ اول ، بیروت ۱۴۰۸ ھ
6 - طریحی ، فخر الدین موسسہ البعثہ مجمع البحرین : جلد ۲ ص ۱۰۱ و الزبیدی ، محمد مرتضی الواسطی ، دار الفکر ، بیروت تاج العروس جلد ۱۴ ص ۲۵۲ ، القاموس المحیط جلد ۳ ص ۳۷۹
7 ۔ طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان .ج ۱۷، ص ۲۲
8 - احقاق الحق، ج۱۱ ، ص۳۰۱ و موسوعۃ الامام الحسین ، ص ۳۶۰