‫‫کیٹیگری‬ :
24 November 2013 - 12:42
News ID: 6151
فونت
قائد انقلاب اسلامی :
رسا نیوز ایجنسی ـ رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی خبر رساں سائٹ سے منقولہ رپورٹ کی مطابق قائد انقلاب اسلامی نے رضاکار فورس 'بسیج' کے کمانڈروں اور کارکنوں کے پچاس ہزار کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں امریکا کی سرکردگی والے عالمی استکبار کی مخالف حق اور فریب دہی پر مبنی روش نیز اس کے عادات و خصائص پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کی استقامت و قوت دشمنوں کو مایوسی و قنوطیت میں مبتلا کر دینے کا واحد راستہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامي


رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی خبر رساں سائٹ سے منقولہ رپورٹ کی مطابق قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے رضاکار فورس 'بسیج' کے کمانڈروں اور کارکنوں نے پچاس ہزار کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں امریکا کی سرکردگی والے عالمی استکبار کی مخالف حق اور فریب دہی پر مبنی روش نیز اس کے عادات و خصائص پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کی استقامت و قوت دشمنوں کو مایوسی و قنوطیت میں مبتلا کر دینے کا واحد راستہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حکومت اور عہدیداروں کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی معاملے میں ریڈ لائن کا خیال رکھا جانا چاہئے اور ملت ایران کے حقوق کے سلسلے میں ایک انچ بھی پسپائی نہیں ہونا چاہئے۔

بدھ کے روز رضاکار فورس کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے 'بسیج' کو ملت ایران کی عظمت کا آئینہ اور ملک کی انتہائی کارساز داخلی قوت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام، انقلاب اور وطن عزیز سے محبت کرنے والوں کے لئے 'بسیج' باعث مسرت، امید بخش اور قابل اعتماد ہے جبکہ اسلامی نظام کے دشمنوں، بدخواہوں اور کینہ رکھنے والوں کے خوف و ہراس کا سبب ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے رسول کی نواسی ثانی زہرا حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے عظیم کارنامے کے موقع پر منائے جانے والے 'ہفتہ بسیج' کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ 'زینبیہ جہاد' تحریک کربلا کے سلسلے کی وہ کڑی ہے جو اس تحریک کو مکمل کرتی ہے بلکہ ایک اعتبار سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا جہاد کربلا کے عظیم واقعے کو نئی زندگی عطا کرنے اور اسے محفوظ بنا دینے والا عنصر ہے۔
آپ نے فرمایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے عظیم کارمانے کی گہرائی کا موازنہ صرف عاشور کے عظیم کارنامے سے کیا جا سکتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلام اور عالم انسانیت کی اس عظیم خاتون نے تمام مصیبتوں اور تلخ واقعات کے سامنے سربلند اور محکم پہاڑ کی مانند استقامت کا مظاہرہ کیا اور ایک ابدی قائد اور نمونہ عمل بن گئیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے اہل کوفہ کے درمیان، اسی طرح ابن زیاد کے دربار اور شام میں یزید کے دربار میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے آہنی عزم کی عکاسی کرنے والے فصیح و بلیغ خطبوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ عظیم خاتون عز و وقار کا پیکر بن گئی جیسے عاشور کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام عز و وقار کی تصویر بن گئے تھے۔

قائد انقلاب اسلامی کے بقول حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی استقامت و پائیداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ میں راہ حق پر ثابت قدم رہنے کا ایک نمونہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہماری پیش قدمی کا عمل اور رخ و سمت کا تعین ہمیشہ حضرت زینب کے انداز میں ہونا چاہئے اور ہمارا ہدف اسلام کے وقار، اسلامی معاشرے کے وقار اور انسان کے وقار کو بڑھانا ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور دیگر انبیاء و اولیائے الہی اور مومنین کے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے والا اصلی عامل اور علت اللہ سے کئے گئے عہد و پیمان کے سلسلے مین صادقانہ و مخلصانہ طرز عمل ہے۔

آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم اس خلوص و صداقت کو انبیاء و اولیائے الہی کے ساتھ ہی مومنین اور عام انسانوں کے لئے بھی لازمی قرار دیتا ہے، چنانچہ ہم سب کو اللہ سے کئے گئے اپنے پیمان کے سلسلے میں جوابدہ ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قرآن کریم کے صریحی بیان کے مطابق یہ عہد و پیمان فوجی، سیاسی اور اقتصادی مقابلہ آرائی کے وقت دشمن کے سامنے ڈٹ جانے اور دشمن کو پیٹھ نہ دکھانے سے عبارت ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس عہد کا تقاضا ہے کہ جہاں کہیں بھی مقابلہ آرائی کی صورت حال پیش آئے، دشمن کے مقابل ڈٹ جایا جائے اور دشمنوں کے عزائم پر مومنین کے عزم و ارادے کو غلبہ ملے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں فاتحانہ لچک کی اصطلاح کا حوالہ دیا جس کے بارے میں آپ چند روز قبل بھی اشارہ کر چکے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ بعض افراد فاتحانہ لچک کو اسلامی نظام کے اصولوں اور اعلی مقاصد سے دست بردار ہو جانے سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض دشمن طاقتیں بھی اسی بنیاد پر اسلامی نظام کی اپنے اصولوں سے پسپائی کے دعوے کرنے لگی ہیں جبکہ یہ تصورات خلاف حقیقت اور غلط فہمی کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فاتحانہ لچک کے معنی ہیں فنکارانہ مشق اور اسلامی نظام کے گوناگوں اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے مختلف روشوں اور طریقوں کو بروئے کار لانا۔

قائد انقلاب اسلامی نے پیشرفت اور عظیم اسلامی تمدن کی تشکیل کے لئے اسلامی نظام کے گوناگوں مقاصد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ اہداف مرحلے وار اور تدریجی طور پر پورے ہوں گے اور قائدین، مفکرین اور حکام ان مراحل کا تعین کر رہے ہیں تا کہ اس کے بعد اجتماعی پیش قدمی کا عمل شروع ہو۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ اسلامی نظام کی پیشرفت کے لئے منطقی پیش قدمی کا درست سسٹم ہے جسے تمام سیاسی کارکنوں، اعلی عہدیداروں اور بسیج سے تعلق رکھنے والے عناصر کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے۔ اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے کئی بنیادی سوال اٹھائے۔

آپ نے کہا کہ کیا اسلامی نظام دنیا کی تمام اقوام اور حکومتوں سے تنازعہ رکھنے کا خواہشمند ہے؟ جیسا کہ بعض اوقات ملت ایران کے کچھ دشمنوں منجملہ علاقے کے ہمیشہ بھونکتے رہنے والے نجس و منحوس کتے یعنی صیہونی حکومت کی زبانی یہ بات سننے میں آتی ہے! قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن کا یہ الزام اسلامی نقطہ نگاہ اور روش کے برخلاف ہے کیونکہ اسلام و قرآن و پیغمبر اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے ملنے والے سبق کی بنیاد پر اسلامی نظام کا ہدف تمام قوموں کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی سے پیش آنا اور انصاف کے مطابق عمل کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا کے لئے حقیقی خطرہ دنیا کی شرانگیز طاقتوں منجملہ جعلی صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں سے ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی نظام ہمیشہ تمام انسانوں کی خدمت کرنے اور محبت سے پیش آنے اور تمام قوموں سے دوستانہ روابط قائم کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگرچہ امریکی حکومت ملت ایران اور اسلامی نظام کے سلسلے میں بدخواہ، کینہ توز اور استکباری حکومت ہے لیکن پھر بھی امریکی عوام سے اسلامی نظام کی دشمنی نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ اسلامی نظام کے مد مقابل جو چیز ہے اور اسلامی نظام جس چیز سے لڑ رہا ہے وہ استکبار ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اس اہم نکتے پر تاکید کرنے کے بعد استکبار کی تاریخی خصوصیات اور عصر حاضر میں اس کے مظاہر کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ استکبار ایسا لفظ ہے جو قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے، تاریخ میں استکبار کا ڈھانچہ ہمیشہ ایک رہا تاہم اس کی روش اور طرز عمل میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ہر میدان میں کسی بھی طرح کی غیر دانشمندانہ حرکت سے اجتناب کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ استکبار کی مخالفت اور اس کے خلاف جدوجہد سمیت تمام میدانوں اور اقدامات میں منصوبہ بندی، تدبر اور حکمت عملی کے مطابق کام کرنا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے استکباری نظام کا مدبرانہ اور دانشمدانہ مقابلہ کرنے کے لئے استکباری نظام کے خصائص، کارکردگی اور پالیسیوں سے واقفیت کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ تسلط پسندانہ نظام کے خصائص کی صحیح شناخت اور ادراک کے بغیر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے دانشمندانہ منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔ آپ نے استکباری نظام کے روئے کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے متکبرانہ مزاج کا ذکر کیا۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب کوئی ملک یا عالمی نظام خود کو اساس، محور اور سب سے برتر تصور کرنے لگے تو پھر عالمی روابط میں بڑے خطرناک مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دیگر ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنا، اپنی پسندیدہ عادات و اطوار کو دیگر اقوام پر مسلط کرنا اور پوری دنیا کا نظام چلانے کا دعوی تسلط پسندانہ نظام کے احساس برتری اور تکبر کے نتائج ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی حکام اس طرح بات کرتے ہیں کہ گویا تمام قوموں کے آقا اور دنیا و علاقے کے مالک و مختار ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے استکبار کے تکبر کا دوسرا منفی نتیجہ یہ بتایا کہ وہ حق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ آپ نے قوموں کے حقوق کے سلسلے میں استکبار اور امریکا کی زبردستی اور ضد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قوموں کے حقوق کی تسلط پسند طاقتوں کی جانب سے مخالفت کی واضح مثال ایران کا ایٹمی مسئلہ ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو بھی انسان اور ملک عقل و منطق اور استدلال و استنباط کا حامی ہے وہ حق بات کے سامنے مزاحمت کرنا بند کر دیتا ہے لیکن استکبار کا یہ عالم ہے کہ وہ حق بات اور دوسروں کے حقوق کو بھی تسلیم نہیں کرتا بلکہ حقوق کو پامال کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے قوموں کے سلسلے میں مجرمانہ اقدامات کو بھی جائز سمجھنے کو استکبار کی ایک اور خصوصیت قرار دیا اور فرمایا کہ تسلط پسندانہ نظام ان انسانوں اور قوموں کو بے وقعت سمجھتا ہے جو اس کی تابعداری پر آمادہ نہ ہوں اور ان کے خلاف ہر مجرمانہ فعل انجام دینے پر کمربستہ رہتا ہے۔ اس سلسلے میں لا تعداد مثالوں میں سے چند کا ذکر کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے مقامی باشندوں کے ساتھ استکباری عناصر کے نفرت انگیز برتاؤ، آسٹریلیا کے مقامی لوگوں کے خلاف برطانیہ کے جرائم اور امریکیوں کے ہاتھوں افریقا کے سیاہ فاموں کو پہنائی جانی والی غلامی کی زنجیر کا حوالہ دیا۔

قائد انقلاب اسلامی نے جاپان میں امریکا کی ایٹمی بمباری کو استکبار کے عصر حاضر کے جرائم کی ایک مثال قرار دیا اور فرمایا کہ دنیا میں صرف دو بار ایٹم بم استعمال کیا گیا ہے اور دونوں دفعہ یہ فعل امریکیوں نے جاپان کے عوام کے خلاف انجام دیا لیکن اس مجرمانہ فعل کا ارتکاب کرنے کے باوجود آج وہ خود کو دنیا کے ایٹمی امور کا سرپرست قرار دیتے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے ویتنام، عراق، پاکستان اور افغانستان میں عوام کے بے دریغ قتل اور ایذارسانی کے واقعات کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ گوانتانامو اور ابو غریب میں دی جانے والی نفرت آنگیز ایذائیں دنیا کی قومیں کبھی بھی فراموش نہیں کریں گی۔

قائد انقلاب اسلامی نے تسلط پسندانہ نظام کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کی خصوصیات و عادات سے واقفیت کی ضرورت کے تناظر میں تسلط پسندوں کی فریب دہی اور منافقانہ روش کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جرائم کو خدمات کا نام دے دینا، استکباری عناصر کا بڑا رائج حربہ ہے۔ آپ نے اس ضمن میں جاپان میں ایٹمی حملے کی توجیہ کے سلسلے میں امریکیوں کے پروپیگنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے میں دو لاکھ افراد مارے نہ گئے ہوتے تو دوسری عالمی جنگ ختم نہ ہوتی اور عالمی برادری کو مزید بیس لاکھ جانوں کا ضیاع برداشت کرنا پڑتا، بنابریں امریکا نے جاپان پر حملہ کرکے در حقیقت انسانیت کی خدمت کی ہے!

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ عجیب و غریب دروغگوئی اور دھوکے بازی بار بار دہرائی جا رہی ہے جبکہ دستیاب دستاویزات کے مطابق جاپان پر امریکا کے ایٹمی حملے کے چند ماہ پہلے ہی ہٹلر جو دوسری عالمی جنگ کا اصلی ستون تھا، خودکشی کر چکا تھا۔ عالمی جنگ کا دوسرا ستون یعنی مسولینی بھی اس حملے سے قبل گرفتار کیا جا چکا تھا اور جاپان نے بھی دو مہینہ پہلے ہی ہتھیار ڈال دینے پر اپنی آمادگی کا اعلان کر دیا تھا۔

قائد انقلاب اسلامی نے جاپان پر امریکا کی ایٹمی بمباری کی اصلی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی اپنے نئے ہتھیار یعنی ایٹم بم کا ایک اصلی میدان جنگ میں تجربہ کرنا چاہتے تھے اور یہ کام انہوں نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے بے گناہ عوام کے قتل عام کی صورت میں انجام دیا لیکن آج وہ اپنے پروپیگنڈوں میں اپنے اس انسانیت سوز جرم کو خدمت کا نام دیتے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے شام کے کیمیائی اسلحے کے سلسلے میں اختیار کی جانے والی منافقانہ روش کو بھی استکباری نظام کی فریب دہی کی ایک مثال قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکا کے صدر اور دیگر حکام نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو بار بار اپنی ریڈ لائن قرار دیا لیکن اسی امریکی حکومت نے ایرانی عوام پر صدام کے کیمیائی حملوں کی نہ فقط یہ کہ مخالفت نہیں کی بلکہ کم از کم پانچ سو ٹن انتہائی خطرناک کیمیائی مادے اس نے صدام کو فراہم کئے اور بغداد کے ڈکٹیٹر نے اس کی مدد سے مسٹرڈ گیس تیار کی اور ایران کے غیور محافظوں کو نشانہ بنایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے مسافر طیارے پر امریکی بحری بیڑے سے ہونے والے حملے میں تقریبا تین سو مسافروں کے قتل عام اور صدام حکومت کی بھرپور انٹیلیجنس مدد کو امریکی حکومت کے جرائم کے دیگر نمونے قرار دیا اور فرمایا کہ استکباری نظام کی ایک اور خصوصیت تفرقہ انگیزی اور جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے پوری تاریخ میں حق و استکبار کے محاذوں کی مقابلہ آرائی جاری رہنے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بنیادی سوال اٹھایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف استکبار کی سازشوں کی اصلی وجہ کیا ہے؟ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اسلامی انقلاب کے معرض وجود میں آنے کے اصلی محرکات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عظیم الشان ملت ایران کا انقلاب اور اس قوم کا منتخب کردہ نظام بنیادی طور پر استکبار اور اس کے مہروں کے خلاف احتجاج کے طور پر وجود میں آیا اور نمو کی مزلیں طے کرتا رہا ہے، بنابریں مذکورہ صفات و عادات کی وجہ سے استکبار کبھی بھی اس نظام کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوگا سوائے اس صورت کے کہ جب وہ اس نظام کو شکست دینے کی بابت بالکل ناامید ہو جائے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے استکبار کو باز رکھنے کا واحد طریقہ یہ بتایا کہ اسے پوری طرح مایوس کر دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام ایرانی عوام، ہمارے نوجوان اور وہ تمام افراد جو کسی بھی وجہ سے اپنے وطن اور اپنی سرزمین پر ایمان رکھتے ہیں، مل کر یہ کوشش کریں کہ دشمن پر قنوطیت طاری ہو جائے اور وہ سازشوں کی طرف سے مایوسی میں مبتلا ہو جائے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اوائل انقلاب سے اب تک امریکا کے تمام صدور کی بلا وقفہ جاری رہنے والی ایران دشمنی کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ قومیتی اور نسلی مسائل کو ہوا دینا، بغاوت کی کوشش کرنا، صدام کو اکسانا، عراق کی بے دریغ مدد اور (ایران کےخلاف) دباؤ اور پابندیاں یہ سب اس قوم سے امریکا کی پیہم دشمنی کی علامتیں ہیں جس نے پینتیس سال قبل مغربی ایشیا کے انتہائی حساس علاقے میں، آزادی و خود مختاری کی تحریک چلائی اور تمام تر مخاصمتوں کے باوجود ترقی کا سفر جاری رکھا اور علاقوں کی قوموں کے لئے نمونہ اور مثالیہ بن گئی۔

قائد انقلاب اسلامی نے سنہ دو ہزار نو میں ایران میں اٹھنے والے فتنے میں موجودہ امریکی صدر (باراک حسین اوباما) کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے میں ایک سوشل نیٹ ورک کو جو فتنہ پرور عناصر کی مدد کر سکتا تھا، مرمت کی ضرورت تھی لیکن اسی امریکی حکومت نے اسے (مرمت کے لئے) کام روکنے سے منع کر دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وہ اس خام خیالی اور احمقانہ فکر میں تھے کہ سوشل سائٹوں، ٹویٹر اور فیس بک سے اسلامی نظام کا تختہ الٹا جا سکتا ہے، اسی لئے انہوں نے اپنے تمام وسائل و امکانات کو محاذ پر کھڑا کر دیا۔

قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اقتصادی پابندیاں ملت ایران کو شکست سے دوچار کرنے کا دشمن کا ایک اور حربہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ان کی سب سے بڑی بھول یہ ہے کہ انہوں نے اس قوم اور اس کے ایمان و اتحاد کو نہیں پہچانا ہے اور اپنی گزشتہ غلطیوں اور شکستوں سے عبرت نہیں پکڑی۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ پینتیس سال کے دوران ملت ایران اور اسلامی نظام کی پیہم استقامت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ساری کامیابیاں اور استکبار کی شکستیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ دشمن کی ریشہ دوانیوں کا سد باب کرنے اور اسے پسپائی پر مجبور کرنے کا واحد طریقہ استقامت و مضبوطی ہے اور ہماری قوم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایٹمی مذاکرات اور اس سے متعلق بحثوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں صدر محترم، داخلی حکام اور مذاکرات انجام دینے والے عہدیداروں کی حمایت پر تاکید کرتا ہوں کیونکہ میں نے تمام حکومتوں کی حمایت کو اپنا فرض مانا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میں کئی سال تک اجرائی امور کی ذمہ داری سنبھال چکا ہوں اور اجرائی امور کی سختی اور سنگینی کا مجھے احساس ہے اور میں جانتا ہوں کہ اجرائی شعبے کے عہدیداروں کو مدد اور حمایت کی کتنی ضرورت ہوتی ہے، بنابریں حکومت اور عہدیدارں کے لئے میری حمایت یقینی ہے۔ آپ نے کہا کہ البتہ اس کے ساتھ ہی میں ملت ایران کے حقوق منجملہ ایٹمی حقوق کے محفوظ رہنے پر بھی تاکید کرتا ہوں اور میری پرزور ہدایت ہے کہ ملت ایران کے حقوق سے ایک انچ بھی پسپائی نہ کی جائے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میں مذاکرات کی تفصیلات اور جزوی باتوں میں مداخلت نہیں کرتا لیکن کچھ ریڈ لائنیں ہیں جنہیں ملحوظ رکھا جانا لازمی ہے اور حکام کی بھی ذمہ داری ہے کہ ریڈ لائنوں کو ملحوظ رکھیں اور دشمن کی دھمکیوں اور ماحول سازی سے ہرگز متاثر نہ ہوں۔

قائد انقلاب اسلامی کے مطابق ملت ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں امریکا کی استکباری کینہ پرستی کا نتیجہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ملت ایران کے سلسلے میں امریکا کا کینہ، اونٹ کے کینے کی مانند ہے اور دباؤ ڈالنے کے پیچھے ان کا مقصد یہ ہے کہ شاید ملت ایران گھٹنے ٹیک دے لیکن وہ بہت بڑی بھول میں ہیں کیونکہ ملت ایران دباؤ کے آگے جھکنے والی نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فضل الہی سے ملت ایران سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے انہیں مواقع میں تبدیل کر دیگی۔

قائد انقلاب اسلامی نے ملک کی اقتصادی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کچھ خامیوں اور ان کمزوریوں کی وجہ سے دشمن کے یہاں کچھ توہمات پیدا ہو جانے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ دشمن کے توہم کے برخلاف یہ دباؤ مواقع میں تبدیل ہو جائے گا اور ان مواقع کی مدد سے ہم خامیوں کو برطرف کر لیں گے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پابندیاں کارساز نہیں ہوں گی اور اس کا علم خود امریکیوں کو بھی ہو چکا ہے کیونکہ وہ پابندیوں کی بات کرتے وقت فوجی حملے کی دھمکی بھی دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پابندیوں سے ان کا مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی صدر اور دیگر امریکی حکام پے در پے فوجی حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں جو انتہائی نفرت انگیز حرکت ہے۔ آپ نے کہا کہ امریکی صدر اور دیگر حکام کو چاہئے کہ ملت ایران کو فوجی حملے کی دھمکی دینے کے بجائے اپنی بدحال معیشت اور اپنے قرضوں کی فکر کریں، کوئی طریقہ سوچیں کہ امریکی حکومت دو ہفتے سے زیادہ مدت کے لئے شٹ ڈاؤن پر مجبور ہونے سے بچ جائے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران دنیا کی ساری اقوام کا احترام کرتی ہے لیکن جارحیت کرنے والوں کے سلسلے میں ملت ایران کی جوابی کارروائی پشیمانی پر مجبور کر دینے والی ہوگی اور جارحیت کرنے والوں کو ایسا طمانچہ پڑے گا کہ وہ کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

قائد انقلاب اسلامی کے بقول صیہونی سرمایہ داروں کے نیٹ ورک کو خوش کرنے والے بیان دینے کی امریکی حکام کی مجبوری ان کی ذلت و رسوائی اور بے آبروئی کا سبب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ زوال صیہونی حکومت کا حتمی مقدر ہے کیونکہ یہ مفلوک الحال حکومت طاقت اور جبر کے ذریعے وجود میں آئی ہے اور کوئی بھی مسلط کردہ شئے پائیدار نہیں ہو سکتی۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صیہونیوں کے سامنے جو حقیقت میں انسانیت سے بے بہرہ ہیں، کچھ یورپی حکومت کی چاپلوسی اور تملق پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک زمانے میں برطانیہ اور امریکا کے مقابل فرانس کے صدر کے ڈٹ جانے کی وجہ سے فرانسیسی قوم کی سیاسی ساکھ بڑھی تھی، لیکن آج فرانسیسی حکام امریکا ہی نہیں، نجس و منحوس صیہونی حکومت کے سامنے بھی ذلت و خواری کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو فرانسیسی عوام کی بے عزتی ہے، ان حکام کو اس کے تدارک کا کوئی طریقہ سوچنا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں مختلف شعبوں میں عوام کے تعاون اور شراکت کو 'بسیج' کا حقیقی مفہوم قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جہاں بھی عوام میدان میں آ جائیں گے اور ان کی صفوں میں اتحاد ہوگا وہاں فتح یقینی ہے۔ آپ نے بسیج کو اسی شراکت و تعاون دائمی آمادگی کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ بسیج (رضاکار فورس) ہر زمانے اور ہر موڑ پر اپنی صداقت کے امتحان میں کامیاب رہی ہے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬