10 September 2009 - 14:34
News ID: 249
فونت
دوسری قسط :
حضرت علی علیہ السلام علم و دانش میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے اصحاب اور تمام مسلمانوں میں سب سے دانا اورصاحب عقل وفہم تھے.
علی(ع) اپنے زمانے میں سب سےدانا اورصاحب عقل وفہم تھے

 

 

اپ پھلے مسلمان ھیں جنھوں نے اپنے علمی بیانات میں ازاد عقلی استدلال اور دلیل و برھان کا راستہ کھولا اور معارف اسلامی میں فلسفیانہ بحث کو جاری کیانیز قران کریم کے باطن کے متعلق موضوعات کا بیان فرمایا: ان سب کے علاوہ قرانی الفاظ کی حفاظت کے لئے اپ نے عربی زبان میں ایک گرامرکا ایجاد بھی کیا. اپ فن تقریر میں اعلی پایہ کی شخصیت تھے.


حضرت علی علیہ السلام شجاعت اور بھادری میں ضرب المثل تھے. ان تمام جنگوں میں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے زمانے میں یا اپ کے بعد لڑی گئیں اپ نے سب میں شرکت کی اور کبھی خوف و وحشت اور اضطراب اپ کے نزدیک بھی پھٹکنے نہ پائے اگر چہ بارھا ان واقعات و حوادث سے جو جنگ احد، جنگ حنین، جنگ خیبر اور جنگ خندق میں پیش ائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے اصحاب پر خوف و ھراس طاری ھو گیا تھا یا ان میں سے بعض منتشر اور فرار ھو گئے تھے لیکن اس کے با وجود اپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نھیں دکھائی اور کبھی ایسا نھیں ھوا کہ کفار اور جنگی ناموروں میں سے کوئی اپ کے ساتھ مقابلہ کرے اور زندہ بچ جائے. اسی طرح بھادری اور شجاعت کے باوجود اپ کسی کمزور کو قتل نھیں کرتے تھے اور میدان جنگ سے بھاگ جانے والوں کا پیچھا نھیں کرتے تھے اور نہ ھی شبخون مارتے اور نہ ھی دشمن کے لئے پانی بند کرتے تھے.

 

یہ امر تاریخی حقائق میں سے ھے کہ حضرت علی (ع) نے جنگ خیبر میں ایک زبردست حملہ کیا اور قلعے کے دروازے کے حلقے میں ھاتھ ڈال کر ایک جھٹکے کے ساتھ قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر دور پھینک دیا تھا.

 

اسی طرح فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اکرم نے بتوں کو توڑ دینے کا حکم صادر فرمایا تھا تو بت ”ھبل“ جو مکہ کے سب سے بڑے بتوں میں شمار ھوتا تھا، بھت بھاری اور بڑے پتھر سے بنا ھوا تھا اور کعبے کے عین اوپر نصب کیا گیا تھا حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے حکم سے اپ کے کندھوں پر پاؤں رکہ کر کعبہ کی چھت پر چڑھ کر بت ھبل کو وھاں سے اکھاڑ کر نیچے پھینک دیا تھا.

 

حضرت علی علیہ السلام دینی تقوی اور خدا تعالی کی عبادت میں بھی یگانہ روزگار تھے. جو لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے پاس اکر حضرت علی (ع) کی تندی اور سختی کی شکایت کیا کرتے تھے، اپ ان سے فرماتے کہ علی (ع) کا گلہ نہ کرو اور نہ ھی ان کو ملامت اور سرزنش کرو کیونکہ وہ خدا کا عاشق ھے.1

 

ابودرداء صحابی نے ایک دفعہ حضرت علی (ع) کے جسم اطھر کو مدینے کے ایک نخلستان میں دیکھا کہ لکڑی کی طرح خشک پڑا ھوا ھے . وہ اپ کے گھر اطلاع دینے ائے اور اپ کی زوجہ (حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی پیاری بیٹی تھی) سے افسوس اور تعزیت کا اظھار کیا اور ان کے شوھر کی وفات کی خبر دی. پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی بیٹی نے فرمایا: میرے چچا کا بیٹا مرا نھیں ھے بلکہ عبادت کے دوران خوف خدا سے اس پر غشی کی حالت طاری ھو گئی ھے اور اکثر ایسا ھوتا رھتا ھے

 

حضرت علی علیہ السلام کی اپنے ماتحتوں کے ساتھ مھربانی، غریب اور بیکس لوگوں کے ساتھ ھمدردی، غریبوں اور فقیروں کے ساتھ کرم و سخاوت کی داستانیں زبان زد خاص و عام ھیں. اپ کے ھاتھ جو کچھ بھی اتا تھا اس کو خدا کی راہ میں غریبوں اور بیکس لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے اورخود بڑی تنگی میں بھت ھی سادہ زندگی گزارتے تھے. اپ کھیتی باڑی کو بے حد پسند کرتے تھے لیکن جس زمین کو اباد کرتے اس کو غریبوں اور فقیروں کے لئے وقف کردیتے تھے. اپ کی وقف شدہ ملکیت کو ”وقف علی“ کھا جاتا ھے. اپ کے اخری زمانے میں اس وقف شدہ ملکیت سے اچھی خاصی امدنی ھوتی تھی جو تقریباً چوبیس ھزار دینار (سونے کا سکہ) سالانہ تھی

....................................................

1: مناقب ال ابی طالب ، مناقب خوارزمی

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬