12 April 2010 - 23:05
News ID: 1181
فونت
علی کانگریس:
رسا نیوزایجنسی - علی کانگریس کے اراکین نے اپنی نشست میں کہا کہ جنت البقیع بھی قبلہ اول قدس کی طرح ظلم کا شکار ہے.

 
رسا نیوزایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جایزہ لینے کے بعد خصوصیت سے درجِ ذیل تین نکات پر اپنی رائے ظاہر کی۔

اول مرکزی حکومت کے ذریعہ تعلیمی حق کے بل کی منظوری کے قومی مضمرات دوم وقف بورڈ سے متعلق حالات اور سوم جنت البقیع کے حوالہ سے ہم سب کی زمہ داری ہے۔

اس میں یہ کہا گیا کہ مرکزی حکومت نے تعلیم کو بنیادی حق کی حیثیت سے مان کر ایک بہت اچھا قدم اٹھایا ہے مگر اسکا عملی نفاذ تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگ خود اپنے اس حق کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں بیدار اور با عمل رہیں۔ مثالاً ووٹ کا حق ہمیشہ سے بنیادی حق ہے مگر اسکے با جود مسلمانوں کی کثیر تعدادکے نام ووٹر لسٹ سے غائب ہیں اور اس سلسہ میں قیادت کے دعوے دار کوئی عملی قدم بھی نہیں اٹھاتے۔ اسی طرح ضروری ہوگا کے تمام محلوں میں کچھ با فہم افراد جمع ہوں اور اس بات کی کوشش کریں کے ہر مسلم بچے اور بچی کو اسکا تعلیم کا بنیادی حق دستیاب ہو۔

اسکے لئے مسلم بستیوں کے قریب اسکولوں کا کھولا جانا ضروری ہے پھر یہ اسکول مساوات کی بنیاد پر ہونے چاہئے ایسا نہیں کہ قوم اور سرکار کو غریب مسلمانوں کے نام پر دوہا جائے اور بالائی تو امیروں کے بچوں کے حق میں آئے اورتلچھٹ غریبوں کے۔ جیسا کے کچھ قومی ادارے بھی بالکل بے شرمی کے ساتھ کر رہے ہیں۔

یورپ میں کسی بری سے بری حکومت نے بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظر انداز نہیں کیا جب کہ ہمارے یہاں یہی شعبے پچھڑتے رہے۔ تعلیم انسانوں کو فکری بیداری عطا کرتی ہے اور ان میں دوست اور دشمن کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اس لئے تعلیم کے سلسلے میں ہر بستی میں پورے زور و شور سے عمل کیا جانا ضروری ہے۔

شیعہ وقف بورد کے سلسلے میں اﷲ کا شکر ہے کہ علی کانگریس نے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کر دی ہے اور تمام حالات سے عوام بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف کسی صاحب نے جِس طرح اپنا سارا زور وقف بورڈ پر اپنے قبضے کو باقی رکھنے میں صرف کیا ہے اس سے انکا علمی، فکری، اور اخلاقی افلاس صاف واضح ہو جاتا ہے کیوں کہ انکے پاس اپنے حلقہ بگوشوں کو اپنے پاس جمع رکھنے کے لئے سوائے وقف بورڈ کے مقامات کے کچھ اور نہیں ہے۔ کاش کہ یہی کوششیں بجائے اپنے رشتہ داروںوحلقہ بگوشوں کی محبت میں اللہ اور اہلیبیت کی محبت میں ان عبادت گاہوں کو وا گذار کرانے کے لئے کی گئی ہوتیں جو سرکار کے پاس قرق ہیں۔عزاداری جلوسوں کے لئے ہوتی توجو پچھلے کئی برس سے جلوسوں میں جو دشواریاں ہوتی ہیں وہ نہ ہوتیں اور جلوسوں میں اضافہ بھی ہو جاتا۔
وقف سبطین آباد کی آراضی جو اب تک ایل ڈی اے کے قبضہ میں ہے اسکی واگزاری کے لئے کی ہوتی لیکن افسوس ائسا کچھ نہیں ہوا جس سے قوم و ملت کو فائدہ ہوتا۔

جنت ا لبقیع کے سلسلے میں جس بے شرمی کے ساتھ خاموشی اختیار کر رکھی گئی ہے وہ سخت تردد کی بات تھی مگر اﷲ کا شکر ہے کہ اب علماء کے کچھ طبقے اور عوام اس سلسلے میں بیدار ہو رہے ہیں۔

علی کانگریس اس سلسلے میں اپیل کرتی ہے کہ مشہور مقالے کے مطابق خیر سب سے پہلے اپنے گھر سے شروع کرتے ہوئے تمام علماء مذہب، حق، اور مومنین و مومنات سب سے پہلے اپنے شہر میں محراب و منبر کو صیہونیت اور سعودیت کے چہیتے دوستوں کے چنگل سے آزاد کرائیں تاکہ انکا استعمال مسلمانوں کے پتلے جلوانے کے بجائے مسجد اقصیٰ اور جنت البقیع کی آزادی کے پیام کو عام کرنے کے لئے کیا جا سکے۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬